سوشل میڈیا پر ایک تصویر تیزی سے وائرل ہو رہی ہے۔ اس تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کئی کتابیں ایک نالے کے اوپر پڑی ہیں۔ اس تصویر کو شیئر کرکے سوشل میڈیا یوزرس، دعویٰ کر رہے ہیں کہ سعودی عرب میں ایک نالے سے قرآن پاک کے متعدد نسخے ملے ہیں۔
Megh Updates 🚨™ نامی ویریفائیڈ یوزر نے ایک ٹویٹ کا اسکرین شاٹ پوسٹ کیا، جس میں تصویر کے ساتھ لکھا کہ مکہ علاقے کے طائف میں نالیوں میں ملا قرآن۔ ساتھ ہی اپنے ٹویٹ کے کیپشن میں لکھا کہ سعودی عرب میں نالیوں کی صفائی کے دوران کئی قرآن ملے‘۔
علاوہ ازیں ڈاکٹر سید رضوان احمد نامی یوزر نے بھی اس سکرین شاٹ کو ٹویٹر پر پوسٹ کرکے لکھا کہ سعودی عرب میں نالیوں کی صفائی کے دوران کئی کتابیں قرآن ملیں😏🙃🙂‘۔
وہیں ایک یوٹیوب یوزر حارث سلطان نے اپنے ویڈیو میں اس تصویر کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ سعودی عرب اور ایران میں مسلمان قرآن سے بیزار ہو گیا ہے اور وہ قرآن کے نسخوں کو نالیوں میں پھینک رہا ہے۔
فیکٹ چیک:
وائرل تصویر اور اس کے ساتھ کیے گئے دعوے کا فیکٹ چیک کے لیے DFRAC ٹیم نے گوگل پر کچھ کی-ورڈ کی مدد سے سرچ کیا۔ اس بار ہمیں اسلامی جمہوریہ نیوز ایجنسی (IRNA)کی ایک رپورٹ ملی ہے۔
14 دسمبر 2014 کو پبلش اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ رواں برس کے شروعات میں سعودی عرب میں ریاستی تنظیموں نے طائف شہر کی گلیوں کی سیوریج کے نالوں میں پچاس سے زائد نسخے پھینک کر قرآن پاک کی بے حرمتی کی۔ واقعہ کی اطلاع ایک مقامی طالب علم نے دی جس نے طائف کے ضلع السلامہ میں گھر جاتے ہوئے مقدس کتابیں دیکھی تھیں۔ IRNA نے اتوار کے روز اطلاع دی کہ ایک سروس کمپنی جو کہ نکاسی آب کے راستے کھولنے میں مہارت رکھتی ہے کو بلایا گیا اور قرآن کے درجنوں نسخے نکالے گئے۔
اس کے علاوہ ہمیں یہ تصویر پاکستان کی خبر رساں ایجنسی دی ڈسپیچ نیوز ڈیسک (DND) کی رپورٹ میں بھی ملی۔ 17 دسمبر 2013 کو پبلش رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ واقعہ طائف کے ضلع السلامہ میں پیش آیا۔ ایک مقامی طالب علم نے گھر جاتے ہوئے قرآن پاک کے نسخوں کو دیکھا تھا۔
نتیجہ:
زیرِ نظر DFRAC کے فیکٹ چیک سے یہ واضح ہے کہ وائرل تصویر گمراہ کن ہے،کیونکہ یہ واقعہ 2013 کا ہے۔