ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے۔ یہ تصویر بلیک اینڈ وائٹ ہے۔ اس تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک شخص ستون سے باندھا گیا ہے اور ایک انگریز سپاہی اسے کوڑے (تازیانے) مار رہا ہے۔ سوشل میڈیا یوزرس دعویٰ کر رہے ہیں کہ یہ تصویر شہید بھگت سنگھ (Bhagat Singh)کی ہے۔ اس تصویر پر ٹیکسٹ لکھا ہے، ’امر شہید بھگت سنگھ کی ایک نایاب تصویر – جیل میں انگریز انھیں کوڑے لگاتے ہوئے (دائیں)شہید بھگت سنگھ میوزیم میں نصب مجسمہ ۔ (تصویر بشکریہ: ایم کے پال ایڈوکیٹ، راجکوٹ)‘
رنجیت بگّا نامی یوزر نے اس تصویر کو شیئر کرتے ہوئے لکھا ، ’بھگت سنگھ (Bhagat Singh) کی کوڑے سے مار کھاتےہوئے…یہ نایاب تصویر کبھی اخبار میں شائع ہوئی تھی۔ اور ہمیں پڑھایا جاتا ہے کہ آزادی نہرو اور گاندھی نے دلوائی تھی۔ آزادی کے عظیم ہیرو آزاد، بھگت سنگھ، ادھم سنگھ، اشفاق اللہ خاں جیسے انقلابی تھے‘۔
भगत सिंह की कोड़े से मार खाते हुए ये दुर्लभ फोटो कभी अख़बार छपी थी
और हमें पढ़ाया जाता है कि आजादी नेहरू और गांधी ने दिलवाई थी
आजादी के महानायक आजाद, भगत सिंह, उधमसिंह, अशफाकउल्ला जैसे क्रांतिकारी थे pic.twitter.com/jwrtFNzmNf
— 𝕸𝖆𝖓𝖏𝖊𝖊𝖙 𝕭𝖆𝖌𝖌𝖆🇮🇳🙏🏻 (@Goldenthrust) June 24, 2022
وہیں ایک دیگر یوزر نے اسی کیپشن کے ساتھ وہی تصویر شیئر کی ہے۔
भगत सिंह की कोड़े से मार खाते हुए ये दुर्लभ फोटो कभी अख़बार छपी थी
और हमें पढ़ाया जाता है कि आजादी नेहरू और गांधी ने दिलवाई थी
आजादी के महानायक आजाद, भगत सिंह, उधमसिंह, अशफाकउल्ला जैसे क्रांतिकारी थे pic.twitter.com/6txyG218P9
— Love Pathak Gopal Ji (@lovepathak007) June 23, 2022
قابل ذکر ہے کہ یہ تصویر ہر سال وائرل ہوتی ہے۔ قبل ازیں ؤ2019، 2020 اور 2021 میں بھی اسی دعوے کے ساتھ یہ تصویر وائرل ہو چکی ہے۔
2019 میں وائرل پوسٹ:
#भगत_सिंह जी की,कोड़े से मार खाते हुए
ये दुर्लभ फोटो……
कभी #अखबार मे छपी थी…..और हमको
आजादी नेहरू और गांधी ने दिलाई ये पढ़ाते हैं,
देश के लिए कितने #कोड़े खाए हैं…..#नेहरु,#गांधी ने कोई बताएगा…..😠😠😠😠 pic.twitter.com/KlWDckS4EX— Reshu (@Reshu_blockspcl) May 3, 2019
2020 میں وائرل پوسٹ:
भगत सिंह जी को कोड़े से मार खाते हुए यें दुर्लभ फ़ोटो कभी अख़बार में छपी थी…!
“ना जाने कितनो ने कोड़े खाये,कितनो ने गोली खायी…!
और हमें पढ़ाया जाता है की आज़ादी चरखा चलाने से आयीं…!🤔🤔 pic.twitter.com/noCPvI1cMB— Pawan Pintu Tiwari (@PintuTi33057532) August 23, 2020
2021 میں وائرل پوسٹ:
https://twitter.com/bajarang_bhakt/status/1449402209238618112
فیکٹ چیک:
وائرل ہورہی اس تصویر کی جانچ-پڑتال کے لیے، ہم نے سب سے پہلے گوگل پر سمپل سرچ کیا۔ بھگت سنگھ (Bhagat Singh) کی اس تصویر کے حوالے سے ہمیں گوگل پر کوئی معلومات نہیں مل سکی۔ اس کے بعد، تصویر کے بارے میں مزید سرچ کرنے کے بعد، ہمیں یہ تصویر لندن میں تاریخ کے پروفیسر کِم اے ویگنر کی پوسٹ پر ملی۔
انہوں نے یہ تصویر 22 مئی 2018 کو پوسٹ کی تھی۔ انہوں نے اس تصویر کے بارے میں لکھا،’ Here are two of the photographs of public floggings at Kasur, in Punjab, that were smuggled out of India and published by Benjamin Horniman in 1920 #AmritsarMassacre ‘ جس کاممکنہ اردو ترجمہ بایں طور ہے،’یہاں پنجاب کے قصور میں سرعام کوڑا مارنے کی دو تصویریں ہیں،جنھیں اسمگلنگ کرکے ہندوستان سے باہر لایا گیا تھا اور 1920 میں بینجمن ہارنیمین کی جانب سے شائع کیا گیا تھا #AmritsarMassacre‘۔
یہ بھی پڑھیں:فیکٹ چیک: ’انقلاب زندہ باد‘ کا نعرہ بھگت سنگھ نے نہیں، حسرت ؔموہانی نے دیا تھا
Here are two of the photographs of public floggings at Kasur, in Punjab, that were smuggled out of India and published by Benjamin Horniman in 1920 #AmritsarMassacre pic.twitter.com/qoUZOPypsY
— Kim A. Wagner (@KimAtiWagner) May 22, 2018
پروفیسر ویگنر نے اپنی پوسٹ میں کہیں بھی بھگت سنگھ (Bhagat Singh) کا ذکر نہیں کیا ہے۔ ساتھ ہی یہ تصویر 1920 کی بتائی جا رہی ہے۔ جس وقت کی یہ تصویر بتائی جا رہی ہے، اس وقت بھگت سنگھ کی عمر 13 سال تھی۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق بھگت سنگھ (Bhagat Singh) پہلی بار 1927 میں جیل گئے تھے۔
نتیجہ:
ہمارے فیکٹ چیک سے ثابت ہوتا ہے کہ شہید بھگت سنگھ (Bhagat Singh) کے بارے میں سوشل میڈیا پر جو دعویٰ کیا جا رہا ہے وہ گمراہ کن ہے۔ تصویر میں نظر آنے والا شخص بھگت سنگھ نہیں ہے۔
دعویٰ : کوڑے کی مارکھاتےبھگت سنگھ کی نایاب تصویر
دعویٰ کنندگان: سوشل میڈیا یوزرس
فیکٹ چیک: گمراہ کن
- فیکٹ چیک: زی نیوز، بی جے پی کے وزراء نے کنہیا لال کے قتل پر پھیلایا راہل گاندھی کا گمراہ کن ویڈیو
- فیکٹ چیک: کیا ہندوستانی مسلمان مظاہرین نے جلایا ترنگا؟
(آپ DFRAC# کو ٹویٹر، فیسبک اور یوٹیوب پر فالو کر سکتے ہیں۔)