میانمار میں ہوئے ظلم و تشدد کے بعد بھاگ کر ہندوستان میں پناہ لینے والے روہنگیا مسلمانوں سے متعلق آسام حکومت نے کئی اقدامات کیے ہیں۔ حکومت نے بہت سے روہنگیا مسلمانوں کو واپس بھیج دیا ہے۔ وہیں، روہنگیا مسلمانوں کے حوالے سے ملک کی سیاست میں کافی تنازعہ بھی ہوتا آیا ہے۔ حال ہی میں روہنگیا مسلمانوں کو مکانات الاٹ کرنے سے متعلق مرکزی وزیر کے ٹویٹ کے بعد وزارت داخلہ کو صفائی دینا پڑی تھی۔
اس درمیان سوشل میڈیا سائٹس پر ایک گرافیکل تصویر وائرل ہو رہی ہے، جس میں لکھا ہے،’ہندو اکثریتی ریاست آسام میں لاکھوں کی تعداد میں حملہ آور بنگلہ دیشی مسلمان در اندازوں نے مقامی مسلمانوں سے مل کر ہندوؤں کے 73 فیصد اثاثے ہڑپ لیے ہیں، ہندوؤں کو اب پناہ گزیں کیمپوں میں رہنا پڑ رہا ہے۔ یہی درانداز، دنگے-فسادات کرواتے ہیں اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کو انجام دیتے ہیں۔ 40 لاکھ غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں، کیا حکومت انھیں جلد از جلد باہر کرےگی؟‘
یہی تصویر اس دعوے کے ساتھ وائرل ہو رہی ہے کہ لاکھوں حملہ آور بنگلہ دیشی مسلمانوں نے ریاست آسام میں ہندوؤں کی 73 فیصد جائیداد ہتھیا لی ہے۔ یہ بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ 40 لاکھ روہنگیا غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں۔
ٹویٹر پر ایک یوزر نے لکھا،’ روہنگیا کے سبب بھارت میں آبادی تناسب تبدیل ہو سکتا ہے۔ بھارت کو روہنگیا مسلمانوں کو بھارت میں کیوں اجازت دینی چاہیے؟ میرے ٹیکس کا پیسہ ان کے کیمپوں میں کیوں لگایا جائے؟ روہنگیا واپس جاؤ! #روہنگیا_بھگاؤ_دیش_بچاؤ‘۔
فیکٹ چیک:
DFRAC ڈیسک نے وائرل دعوے کی چانچ۔پڑتال کے لیے مخصوص کی-ورڈ اور کی-فریز کو سرچ کیا۔ ہمیں اس تناظر میں کوئی ایسی معلومات نہیں ملی جہاں یہ لکھا ہو کہ بنگلہ دیشی مسلمانوں نے آسام میں ہندوؤں کے 73 فیصد اثاثے ہتھیا لیے ہوں، جہاں یہ لکھا ہو کہ بنگلہ دیشی مسلمانوں نے آسام میں ہندوؤں کی 73 فیصد جائداد ہڑپ لی ہے، جس کے بعد ہندو اب پناہ گزین کیمپوں میں رہ رہے ہیں، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو اس معاملے کو ’مین-اسٹریم میڈیا‘ نے کور کیا ہوتا۔
جب ہم نے دوسرے دعوے کو پرکھا، جس میں بتایا گیا تھا کہ آسام میں تقریباً 40 لاکھ غیر قانونی مسلم مہاجرین رہ رہے ہیں، DFRAC نے اس 40 لاکھ نمبر کے دعوے کو کو گمراہ کن پایا کیونکہ یہ تعداد 40 لاکھ نہیں بلکہ 40 ہزار ہے۔ اس تعداد میں حیدرآباد، جموں، نوح اور دہلی میں رہنے والے روہنگیا بھی شامل ہیں۔
نتیجہ:
وائرل تصویر میں جو دونوں دعوے کیے جا رہے ہیں وہ درست نہیں ہیں۔ پہلا دعویٰ مکمل طور پر فرضی ہے جبکہ دوسرے دعوے میں 40 ہزار کو 40 لاکھ کہہ کر لوگوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔