اقوام متحدہ کے امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں لوگوں کو ہولناک تباہی کا سامنا ہے جہاں خوراک ان کی پہنچ سے دور ہو گئی ہے، نظم و نسق ختم ہو چکا ہے اور امدادی وسائل پر لوٹ مار کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔
مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے لیے اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) کے سربراہ اجیت سنگھے نے بتایا ہے کہ غزہ میں تباہی بڑھتی جا رہی ہے۔ وہ جب بھی غزہ کا دورہ کرتے ہیں تو وہاں پہلے سے کہیں زیادہ تباہی نظر آتی ہے۔ مقامی بازار ختم ہو چکے ہیں، کھانے پینے کی اشیا ڈھونڈے سے نہیں ملتیں۔ بچے اور خواتین کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں پر خوراک تلاش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
جنیوا میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ بے گھر لوگوں کو عارضی خیموں میں برے حالات درپیش ہیں۔ خواتین کو تحفظ کے مسائل اور صنفی بنیاد پر تشدد کا سامنا ہے۔ تاہم، ان ہولناک حالات کے باوجود لوگوں میں مضبوطی بھی پائی جاتی ہے جہاں ایسے مسائل پیدا ہوں وہاں نوجوان مدد کے لیے پہنچتے ہیں۔
روٹی پہنچ سے دور
عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) نے ان حالات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ علاقے میں بہت سے لوگوں کی روزانہ خوراک صرف روٹی ہے اور اب یہ بھی ان کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہے۔
ادارے کا کہنا ہے کہ غزہ میں خوراک کی قیمتیں جنگ سے پہلے کے مقابلے میں 1,000 گنا سے بھی زیادہ بڑھ گئی ہیں جس کا اندازہ یوں ہوتا ہے کہ شمالی علاقوں میں ٹماٹر کی قیمت میں 8,789 گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ لوگوں کو متنوع خوراک دستیاب نہ ہونے سے جسمانی عوارض لاحق ہو رہے ہیں۔
مغربی کنارے میں تشدد
امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) کے مطابق، رواں سال زیتون کی فصل تیار ہونے کے موسم میں مغربی کنارے میں رہنے والے فلسطینیوں پر اسرائیلی آباد کاروں کے حملوں میں تین گنا اضافہ ہو گیا ہے۔
19 اور 25 نومبر کے درمیان اسرائیل کی فورسز نے ایک بچے سمیت نو فلسطینیوں کو ہلاک کیا۔ ان میں سے سات جینین میں 48 گھنٹے تک جاری رہنے والی ایک کارروائی میں ہلاک ہوئے۔
‘اوچا’ نے اسرائیلی ذرائع ابلاغ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ شوفات پناہ گزین کیمپ کے قریب فورسز نے ایک 15 سالہ فلسطینی بچے کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا جو راہگیروں کے لیے ممنوعہ جگہ کی جانب جا رہا تھا۔