اقوام متحدہ کے امدادی اداروں نے کہا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی فوج کے تازہ ترین احکامات پر انخلا کرنے والے لوگ اپنی زندگیاں بچانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر نامعلوم منزل کی جانب نقل مکانی کر رہے ہیں۔
اسرائیل کی جانب سے انخلا کے احکامات جاری ہونے سے خان یونس کے قریب ساحلی علاقہ المواصی بھی متاثر ہوا ہے جسے قبل ازیں پناہ گزینوں کے لیے ‘محفوظ’ قرار دیا گیا تھا۔ یہاں بڑی تعداد میں موجود لوگ اب دیرالبلح اور خان یونس کے مغربی علاقے کا رخ کر رہے ہیں۔
There is nowhere safe to go in Gaza. Evacuation orders have hit a huge part of the Strip leaving less & less places to go for the displaced
— UNRWA (@UNRWA) July 23, 2024
People are exhausted from the continuous displacement and unlivable conditions & they are trapped in increasingly small & overcrowded areas pic.twitter.com/KLZcWyxkSD
امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) نے بتایا ہے کہ ان دونوں جگہوں پر پہلے ہی بڑی تعداد میں پناہ گزین جمع ہیں جہاں خیموں اور پناہ گاہوں کی شدید قلت ہے۔22 جولائی تک اسرائیل کی فوج غزہ کے قریباً 83 فیصد علاقے کو ممنوعہ قرار دیتے ہوئے وہاں سے انخلا کا حکم دے چکی تھی۔
‘پناہ گزین کہاں جائیں؟’
فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انرا) نے بتایا ہے کہ جنوبی علاقے خان یونس سے ہزاروں لوگ اپنے ٹھکانے اور خیمے چھوڑ کر نکل رہے ہیں۔ ان کے بچے خوفزدہ دکھائی دیتے ہیں، معمر افراد گدھا گاڑیوں پر سوار ہیں اور معذور لوگوں کو وہیل چیئر پر لے جایا جا رہا ہے۔
‘انرا’ کی ترجمان اعلیٰ لوسی ویٹریج نے کہا ہے کہ ہر جانب لوگ فائرنگ کی آواز سن کر بھاگتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے پاس وہی سامان ہے جو وہ ہاتھوں میں اٹھا سکتے ہیں۔ لوگوں کو علم نہیں کہ انہیں کہاں جانا ہے۔ یہی آج کا سب سے بڑا سوال ہے کہ وہ کہاں جائیں۔
انخلا کے احکامات کی مذمت
اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) نے اسرائیل کی جانب سے انخلا کے متواتر احکامات کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہریوں کو جگہ چھوڑنے اور اپنی نئی منزل کا تعین کرنے کا وقت ملنا چاہیے۔
ادارے نے غزہ کے طبی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ سوموار کو خان یونس پر اسرائیل کی بمباری اور زمینی حملوں میں خواتین اور بچوں سمیت 70 فلسطینی ہلاک اور کم از کم 200 زخمی ہو گئے۔
علاقے میں اسرائیل کی عسکری کارروائیاں بدستور جاری ہیں۔ جن علاقوں سے انخلا کا حکم دیا گیا ہے ان میں شاہراہ صلاح الدین کے بعض حصے بھی آتے ہیں۔ یہ امداد کی فراہمی کے لیے غزہ کے دو بڑے راستوں میں سے ایک ہے۔ ‘او ایچ سی ایچ آر’ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ سڑک اور گردونواح میں عسکری کارروائیوں سے انسانی امداد کی فراہمی محدود یا معطل ہو سکتی ہے۔
پولیو کا خطرہ
غزہ میں نکاسی آب کے حالات خراب ہونے اور علاج معالجے تک رسائی کی کمی کے سبب پولیو کی وبا پھوٹنے کے خدشات بھی برقرار ہیں۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) میں ہنگامی طبی حالات کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر عادل سپربیکوو نے کہا ہے کہ پولیو اور دیگر متعدی بیماریوں کا ممکنہ پھیلاؤ نہایت تشویش کا باعث اور انسانی زندگیوں کے لیے جنگ سے بھی کہیں بڑا خطرہ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ غزہ میں ہیپاٹائٹس اے کی موجودگی کی بھی تصدیق ہو چکی ہے۔ طبی نظام کی تباہ حالی، پانی اور صحت و صفائی کی سہولیات کے فقدان اور طبی خدمات تک محدود رسائی نے بڑی تعداد میں لوگوں کی زندگی خطرے میں ڈال دی ہے۔ اگر یہی حالات برقرار رہے تو جنگ سے ہلاک و زخمی ہونے والوں سے کہیں بڑی تعداد میں لوگ مختلف متعدی بیماریوں سے ہلاک ہو سکتے ہیں۔
16 جولائی کو ‘ڈبلیو ایچ او’ نے بتایا تھا کہ غزہ میں چھ مقامات پر ٹائپ ٹو پولیو وائرس کی نشاندہی ہو چکی ہے۔ یہ وائرس خان یونس اور دیرالبلح سے جمع کیے گئے گندے پانی کے 23 نمونوں میں پایا گیا اور غزہ کے کسی فرد کے جسم میں اس کی موجودگی کی تصدیق نہیں ہو سکی کیونکہ اس مقصد کے لیے درکار طبی سازوسامان کی قلت ہے۔
الشفا ہسپتال کی بحالی
ڈاکٹر سپربیکوو نے کہا ہے کہ اس وقت غزہ میں بنیادی مراکز صحت کی نصف تعداد ہی فعال ہے جبکہ 36 میں سے 16 ہسپتال کسی حد تک طبی خدمات مہیا کر رہے ہیں۔
سوموار کو ‘ڈبلیو ایچ او’ اور اس کے شراکت داروں نے غزہ شہر کے الشفا ہسپتال کا دورہ کیا جہاں ادارہ شعبہ بیرونی مریضاں کو بحال کر رہا ہے جو مارچ میں تباہ ہو گیا تھا اور اب اسے ہنگامی شعبے کا درجہ دیا جائے گا۔ ڈاکٹر سپربیکوو نے کہا ہے کہ ہسپتال میں اس وقت ایک ایکس رے مشین ہی فعال ہے اور دیگر تمام طبی سازوسامان تباہ ہو گیا ہے۔
انہوں نے بتایا ہے کہ اگرچہ اسرائیل نے طبی ضرورت کی متعدد اشیا کو غزہ میں لانے پر پابندی عائد کر رکھی ہے لیکن اس کے باوجود ‘ڈبلیو ایچ او’ اور شراکت دار ضروری سازوسامان کی ترسیل ممکن بنانے کے لیے دن رات کام کر رہے ہیں۔