سوشل میڈیا پر کچھ تصاویر شیئر کر کے یوزرس دعویٰ کر رہے ہیں کہ بنگلہ دیش میں مسلمانوں نے ہندوؤں کی دکانوں کو آگ لگا دی ہے۔ اتپل ساہا نامی فیس بک یوزر نے بنگالی میں لکھا،’بولکھلی سب ڈسٹرکٹ کا پوپاڑیا سنگھ۔ کل رات 3 بجے اوراڈ نمبر 3 کدھور کِھل ہائی اسکول کے پاس 5 دکانوں کو آگ لگا دی گئی۔ دکان کے مالک، رونی ڈے، ڈولن، پرمل دیو ناتھ۔ دکان میں موجود 3 بکریاں فریج سمیت سارا سامان جل گیا۔ یہ کس نے کیا یہ سب جاننے کا کیا فائدہ؟ بلکہ خبروں سے لطف اندوز ہوں اور ناشتہ کریں۔ 4 اگست جمعرات 2022 ہر ہر مہادیو ہرے کرشنا جے شری رام‘۔
دیگر سوشل میڈیا یوزرس کی جانب سے بھی اسی دعوے کے ساتھ تصاویر شیئر کرکے کی جا رہی ہیں۔
فیکٹ چیک
وائرل دعوے کی پڑتال کے لیے، ہم نے سب سے پہلے تصویروں کو ریورس امیج سرچ کیا۔ اس دوران ہمیں ویب سائٹ ’chatogramnews‘ پر یہی وائرل تصویر ملی جسے 2 اگست 2022 کوپبلش خبر میں استعمال کیا گیا ہے۔ اس خبر میں بتایا گیا ہے کہ چٹ گاؤں کے بولکھلی میں منگل (2 اگست) کی صبح تقریباً 4 بجے کدھورکھلی گورنمنٹ ہائی اسکول کے قریب شدید طور پر آگ لگ گئی۔ پانچ دکانیں اور تین بکریاں جل کر راکھ ہو گئیں۔
خبر میں بولکھلی فائر سروس کے حوالے سے بتایا گیا کہ آگ منگل (2 اگست) کی صبح تقریباً 4 بجے بجلی شارٹ سرکٹ کی وجہ سے لگی۔
بنگلہ دیشی ویب سائٹ ctgkhobor کی رپورٹ کے مطابق ’حادثے میں محمد محرم علی، محمد رونی، محمد کریم، پریمل اور ڈولن کی دکانیں جل گئیں‘۔
نتیجہ
ڈی ایف آر اے سی کے اس فیکٹ چیک سے واضح ہوتا ہے کہ بنگلہ دیش کے بولکھلی میں بجلی کے شارٹ سرکٹ کی وجہ سے زبردست آگ لگی تھی، اس حادثے میں ہندوؤں کی دکانوں سمیت مسلمانوں کی دکانیں بھی جل کر راکھ ہو گئی تھیں، لہٰذا سوشل میڈیا یوزرس جو دعویٰ کر رہے ہیں، وہ گمراہ کن ہے۔
دعویٰ: بنگلہ دیش میں ہندوؤں کی دکانیں جلائی جارہی ہیں
دعویٰ کنندگان: سوشل میڈیا یوزرس
فیکٹ چیک: گمراہ کن