لکھنؤ میں لولو مال کا شاندار افتتاح وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کیا تھا۔ دو ہزار کروڑ کی لاگت سے 11 ایکڑ میں بنے لولو مال کو یوپی کا سب سے بڑا مال بھی بتایا جا رہا ہے۔ وہیں، افتتاح کے ساتھ ہی لولو مال کے حوالے سے ایک تنازعہ بھی کھڑا ہو گیا ہے۔ مال میں کچھ نوجوانوں کے نماز پڑھنے کے بعد ہندو تنظیموں کی جانب سے مال میں سندر کانڈ پاٹھ کرنے (پڑھنے) کی بابت تنازعہ ہو گیا۔
اسی دوران لولو مال کے بارے میں ایک پوسٹ سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ہے۔ اس پوسٹ میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ لولو مال کے 90 فیصد ملازم مسلمان لڑکے ہیں، جبکہ خاتون ملازمین میں 100 فیصد ہندو لڑکیاں ہیں۔ ایک یوزر نے لکھا،’تین دن پہلے لکھنؤ میں دو ہزار کروڑ کی لاگت سے 11 ایکڑ میں کھلے ،شمالی ہند کے سب سے بڑے اور ملک کے پانچویں ’لولو مال‘ میں کام کرنے والے 90% لڑکے *مسلم* اور 100% لڑکیاں ہندو ہیں۔ لولو کا مالک کیرالا کا *ایم اے یوسف علی* ہے۔#Love_Jihad @Lawyer_Kalpana @iSinghApurva @HJSHindi ‘
اسی طرح ایک دیگر یوزر نے بھی دعویٰ کیا کہ لولو مال میں کل 2000 اہلکار ہیں، جن میں 1800 مسلم لڑکے اور 200 ہندو لڑکیاں ہیں۔
وہیں کئی دیگر یوزرس نے بھی اسی سے ملتے جلتے دعوے کیے ہیں۔
فیکٹ چیک:
وائرل ہورہے اس پوسٹ کی جانچ-پڑتال کے لیے ہم نے گوگل پر سمپل سرچ کیا۔ ہمیں کئی میڈیا چینلوں اور اخبارات کی جانب سے اس بابت پبلش رپورٹس بھی ملیں۔ ان رپورٹس کے مطابق لولو مال کی مینیجمنٹ کمیٹی کی جانب سے ملازمین کے حوالے سے وضاحت دی گئی ہے۔
نتیجہ:
ہمارے فیکٹ چیک سے ثابت ہو رہا ہے کہ لولو مال میں کام کرنے والے 80 فیصد ملازمین مسلم نہیں بلکہ ہندو برادری سے ہیں جبکہ 20 فیصد ملازمین میں مسلمان سمیت دیگر مذاہب کے افراد شامل ہیں؛ لہٰذا سوشل میڈیا یوزرس، لولو مال کو فرقہ وارانہ اینگل دے کر فیک دعوے کر رہے ہیں۔
دعویٰ: لولو مال میں 90فیصد مسلم ملازم اور 10 فیصد ہندو لڑکیاں
دعویٰ کنندگان: سوشل میڈیا یوزرس
فیکٹ چیک : فیک
- مغربی بنگال میں پولیس نے کانوڑیوں کو جم کر پیٹا؟پڑھیں،فیکٹ چیک
- فیکٹ چیک: NIA نے جاری نہیں کیا ہیلپ لائن نمبر ، سوشل میڈیا پر گمراہ کن دعویٰ وائرل
(آپ DFRAC# کو ٹویٹر، فیس بک اور یوٹیوب پر فالو کر سکتے ہیں۔)