
UN Photo/Loey Felipe اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک غزہ سمیت مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے سلامتی کونسل کو بتایا ہے کہ حالیہ دنوں غزہ میں طبی اور امدادی عملے کے 15 ارکان کی ہلاکتوں سے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں جنگی جرائم کے ارتکاب سے متعلق خدشات میں اضافہ ہو گیا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ غزہ میں لوگوں کی تباہ کن تکالیف بڑھتی جا رہی ہیں اور جنگ بندی کے نتیجے میں انہیں عارضی طور پر جو سکون میسر آیا تھا اس کا وجود نہیں رہا۔ غزہ کے طبی حکام کے مطابق، یکم مارچ سے اب تک اسرائیل کی فوج نے 1,200 سے زیادہ فلسطینیوں کو ہلاک کیا ہے جن میں کم از کم 320 بچے بھی شامل ہیں۔
انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ امدادی عملے کو ہلاک کرنے کے حالیہ واقعے کی آزادانہ، فوری اور مفصل تحقیقات ہونی چاہئیں اور بین الاقوامی قانون کی پامالی کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں جاری کشیدگی پر بات چیت کے لیے بلائے گئے اس اجلاس میں ہائی کمشنر نے بتایا کہ غزہ میں کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں اور اسرائیل نے تقریباً نصف علاقے میں رہنے والے لوگوں کو نقل مکانی کا حکم دیا ہے۔ حماس اور دیگر فلسطینی مسلح گروہ اسرائیل پر اندھا دھند راکٹ باری کر رہے ہیں جو کہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں غزہ میں یرغمال بنائے گئے اسرائیلیوں کے بارے میں بھی گہری تشویش ہے۔
بین الاقوامی قانون کی پامالی
ہائی کمشنر کا کہنا تھا کہ غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی کو روکنا وہاں کے لوگوں کو اجتماعی سزا دینے کے مترادف ہے اور یہ بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے جرم کی ذیل میں آ سکتا ہے۔
انہوں نے اسرائیل کے اعلیٰ حکام کی جانب سے غزہ کا محاصرہ کرنے، اس کا اپنے ملک کے ساتھ الحاق کرنے اور فلسطینیوں کو غزہ سے باہر منتقل کرنے کے اشتعال انگیز بیانات پر بھی تشویش ظاہر کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسی باتیں بزور طاقت کسی علاقے کو حاصل کرنے کی ممانعت کے قانون کی خلاف ورزی ہیں اور ان سے بین الاقوامی جرائم کے ارتکاب کے حوالے سے خدشات جنم لیتے ہیں۔
مغربی کنارے میں تشدد
وولکر ترک نے مشرقی یروشلم سمیت مغربی کنارے کی صورتحال پر بھی شدید تشویش کا اظہار کیا جہاں اسرائیل کی کارروائیوں میں سیکڑوں فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ پناہ گزینوں کے کیمپ تباہ کیے جانے سے 40 ہزار لوگ بے گھر ہو گئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ مغربی کنارے میں اسرائیل کی غیرقانونی بستیوں میں اضافہ جاری ہے جبکہ بعض اسرائیلی وزراء مقبوضہ علاقے میں اسرائیلی عملداری قائم کرنے کی بات کر رہے ہیں۔
ہائی کمشنر نے غزہ میں جنگ بندی کی بحالی اور انسانی امداد کی بلارکاوٹ فراہمی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح اسرائیل پر 7 اکتوبر کے حملوں کا کوئی جواز نہیں اسی طرح فلسطینی شہریوں کو اجتماعی سزا دینا بھی بلا جواز ہے۔
ظالمانہ جرائم کا خدشہ
وولکر ترک نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ مقبوضہ فلسطینی علاقے میں ظالمانہ جرائم کا ارتکاب کیا جا رہا ہے۔ جب بین الاقوامی انسانی قانون کی سنگین پامالی سامنے آئے تو جنیوا کنونشن کے تحت رکن ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے روکنے کے لیے تمام ضروری اقدامات اٹھائیں۔
علاوہ ازیں، نسل کشی کے جرم کی روک تھام اور اس پر سزا سے متعلق کنونشن کے رکن ممالک کی ذمہ داری ہے کہ جب ایسا خطرہ قریب ہو تو وہ اسے روکیں۔ انہوں نے فریقین پر اثرورسوخ رکھنے والے تمام ممالک پر زور دیا کہ وہ شہریوں کے تحفظ کو اپنی ترجیح بنائیں۔
مسئلے کا واحد حل
وولکر ترک کا کہنا تھاکہ غزہ اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں حقوق کی تمام پامالیوں پر مکمل احتساب ہونا چاہیے، غزہ میں قید یرغمالیوں کو فوری اور غیرمشروط طور پر رہا کیا جائے اور اسرائیل کی جیلوں میں ناجائز طور پر قید فلسطینیوں کی رہائی بھی عمل میں لائی جائے۔
انہوں نے اسرائیل سے کہا ہے کہ وہ غزہ کی آبادی کو جبراً کہیں اور منتقل کرنے کے مقصد سے کوئی قدم نہ اٹھائے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بین الاقوامی قانون کے تحت سیاسی تصفیہ اور دو ریاستی حل ہی ہی اس مسئلے کو ختم کرنےکا واحد طریقہ ہے۔