
IOM/Majed Mohammed یمنی تنازعہ گیارویں سال میں داخل ہو رہا ہے جبکہ وہاں کے عوام حالات بدلنے کے منتظر ہیں۔
ایک دہائی سے جاری مسلح تنازع کے نتیجے میں یمن کو شدید انسانی بحران کا سامنا ہے جہاں تباہی، ہلاکتوں اور بھوک نے لوگوں کی زندگی کو تہ و بالا کر دیا ہے تاہم عالمی برادری ان کے مصائب پر توجہ دیتی نظر نہیں آتی۔
جنگ کے نتیجے میں یمن کا بنیادی ڈھانچہ منہدم ہو چکا ہے اور لوگ تکالیف سہتے ہوئے تھک چکے ہیں۔ ملک میں تقریباً دو کروڑ لوگوں کی بقا کا انحصار انسانی امداد پر ہے جبکہ 50 لاکھ لوگ اندرون ملک بے گھر ہو چکے ہیں۔
مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے لیے عالمی ادارہ مہاجرت (آئی او ایم) کے ریجنل ڈائریکٹر اوتھمان بلبیسی نے کہا ہے کہ عالمی برادری کی توجہ دنیا بھر میں جنم لینے والے نئے ہنگامی حالات پر مرکوز ہے اور یوں لگتا ہے کہ اس نے یمن کے بحران کو بھلا دیا ہے۔ تاہم، یمن میں کام کرنے والے اقوام متحدہ کے عملے کو لوگوں کی تکالیف کا بخوبی احساس ہے جو ہر طرح کے حالات میں انہیں مدد کی فراہمی کے لیے کوشاں ہے۔
اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے والے ان مقامی لوگوں نے فضائی حملوں، عدم استحکام اور نقصان کا سامان کرتے ہوئے اور اپنے خاندان کے تحفظ کو خطرے میں ڈال کر ذمہ داریاں نبھائی ہیں۔ اب ملک میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور امدادی وسائل میں آںے والے کمی کے باعث انہیں اپنے روزگار کے حوالے سے بھی خدشات لاحق ہیں۔ ان کے پاس پس انداز کردہ مالی وسائل ہیں نہ کہیں اور کام کرنے کے مواقع میسر ہیں۔ عام طور پر ان کے پاسپورٹ سے ہی یہ تعین ہوتا ہے کہ ان کا کیریئر کس قدر طویل ہو سکتا ہے۔

اوتھمان بلبیسی کا کہنا ہے کہ یمن محض بحران زدہ علاقہ ہی نہیں بلکہ حیران کن قدرتی مناظر، قدیم شہر، زرخیز روایات، گرمجوش مہمان نوازی اور ایسی خوراک بھی اس کی پہچان ہیں جس کا ذائقہ طویل عرصہ تک یادداشت کا حصہ رہتا ہے۔ بدقسمتی سے یمن کے حوالے سے یہ چیزیں عالمی ذرائع ابلاغ میں نمایاں نہیں ہوتیں اور دنیا اسے تنازعات اور غربت کے حوالے سے ہی جانتی ہے۔
ملک کے ساحلی شہر الحدیدہ سے تعلق رکھنے والی بسمہ نے اپنے بچوں کے ساتھ پناہ اور پانی کی تلاش میں المکہ کی جانب نقل مکانی کی ہے۔ انہیں پانی کی چند بالٹیوں کے حصول کی خاطر روزانہ کئی گھنٹے پیدل چلنا پڑتا تھا۔ ایک روز ان کا سب سے چھوٹا بچہ گرمی میں پیاس کے مارے بے ہوش ہو گیا۔ سالہا سال تک صاف پانی ان کے لیے خواب تھا جو حالیہ دنوں ان کے علاقے میں پانی کی فراہمی کے منصوبے کی تکمیل کے بعد پورا ہو گیا ہے۔
یمن کے شہر مآرب میں شدید سیلاب کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے 70 سالہ اور ابراہیم کہتے ہیں کہ جب پانی ان کے گاؤں میں پہنچا تو وہ اپنے معذور بیٹے کو کمر پر اٹھا کر محفوظ مقام کی جانب روانہ ہوئے۔ انہوں نے اس آفت میں اپنا گھر، ملکیتی اشیا اور استحکام کے احساس سمیت سب کچھ کھو دیا لیکن کبھی حرف شکایت زبان پر نہیں لائے۔ انہوں نے صرف اپنے بیٹے کے لیے مدد کے حصول پر توجہ دی۔ اب وہ ایک عارضی خیمے میں رہتے اور موسم کی سختیاں برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کا انحصار انسانی امداد پر ہے جس کے بارے میں علم نہیں ہوتا کہ آیا وہ دستیاب ہو گی یا نہیں۔
ایتھوپیا سے تعلق رکھنے والے اور محمد اچھے مستقبل کی تلاش میں صحراؤں کی گرد چھانتے اور جنگ زدہ علاقوں میں زندگی کا خطرہ مول لیتے ہوئے یمن آئے۔ ان کا مقصد خلیجی ریاستوں میں پہنچنا تھا لیکن یمن میں انہیں گرفتار کر کے قید میں ڈال دیا گیا۔ حراست میں ان پر تشدد بھی ہوا اور پھر انہیں بے یارومددگار حالت میں چھوڑ دیا گیا۔ کسی نہ کسی طرح وہ ‘آئی او ایم’ کے مہاجر مرکز میں پہنچ گئے۔ ان کی جسمانی حالت نہایت خستہ تھی اور وہ اپنے ملک واپس جانا چاہتے تھے۔ ان کے پاس واحد راستہ یہی تھا کہ وہ رضاکارانہ واپسی کے لیے خود کو رجسٹر کروا لیں۔ ان جیسے بہت سے دیگر لوگوں کو یہ موقع بھی نہیں ملتا۔
یہ ان لاکھوں لوگوں میں سے تین افراد کی مثالیں ہیں جو اس طویل بحران میں پھنس چکے ہیں۔ یمن عرب دنیا کا غریب ترین ملک ہے جس کی غربت میں متواتر اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کا سبب یمن کے لوگ نہیں بلکہ دنیا ہے جس نے اس سے منہ موڑ لیا ہے۔ یہ جنگ حال ہی میں شروع نہیں ہوئی بلکہ اس کے نتائج روز بروز سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔
اوتھمان بلبیسی کا کہنا ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی ذمہ داری یمن کے لوگوں پر نہیں آتی بلکہ وہ اس کے اثرات جھیل رہے ہیں۔ یہ لوگ عالمی برادری سے رحم کی بھیک نہیں مانگتے بلکہ انہیں دنیا سے یکجہتی درکار ہے۔ لہٰذا رواں سال ان کے لیے ہمدردی کے جذبات کو عمل جامہ پہنانا ہو گا۔
انہوں نے عالمی برادری سے کہا ہے یمن کے لوگ محض متاثرین نہیں بلکہ وہ طبی نگہداشت مہیا کرنے والے، معمار، اساتذہ، مائیں، باپ اور بچے بھی ہیں جن کی ویسی ہی امیدیں اور عزائم ہیں جو دیگر بچوں کے ہوتے ہیں۔ تاہم محض الفاظ سے نہ تو تحفظ ملتا ہے اور نہ ہی پیٹ بھرتا ہے۔ یمن کے لوگوں کو عالمی کانفرنسوں میں اپنے لیے خالی خولی وعدوں کی نہیں بلکہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اگر آج ان سے منہ موڑا گیا تو یہ سفارت کاری ہی نہیں بلکہ انسانیت کی بھی ناکامی ہو گی۔