اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے امریکی شہر لاس اینجلس کے جنگل میں لگنے والی آگ سے ہلاکتوں، تباہی اور ہزاروں لوگوں کے بے گھر ہو جانے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
اس آگ نے ہزاروں ایکڑ زمین کو جلا دیا ہے، لوگوں کے گھر تباہ ہو گئے ہیں جبکہ آگ بجھانے والا عملہ انتہائی مشکل حالات میں اس پر قابو پانے کی سرتوڑ کوششیں کر رہا ہے۔ اس آفت کے نتیجے میں کم از کم پانچ ہلاکتیں ہو چکی ہیں، ہزاروں عمارتیں تباہ ہو گئی ہیں جبکہ ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کو متاثرہ علاقوں سے نقل مکانی کرنا پڑی ہے۔ اندازے کے مطابق آگ سے ہونے والا مالی نقصان 50 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔
اگرچہ امریکہ کی جانب سے مدد کی کوئی رسمی درخواست جاری نہیں کی گئی تاہم سیکرٹری جنرل نےعالمگیر یکجہتی کے لیے اقوام متحدہ کے عزم کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ ادارہ اس آفت سے نمٹنے کے لیے ہرممکن مدد مہیا کرنے کو تیار ہے۔
امدادی کارکنوں کی ستائش
اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن ڈوجیرک کی جانب سےجاری کردہ بیان کے مطابق، سیکرٹری جنرل نے امدادی کارکنوں کی جرات اور لگن کو سراہا ہے جو انتہائی خطرات مول لے کر لوگوں کی زندگی کو تحفظ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق 7,500 سے زیادہ فائر فائٹر آگ پر قابو پانے کی کوششوں میں شریک ہیں۔ آگ بجھانے والے شعبے کے مقامی حکام نے بتایا ہے کہ خشک درختوں اور طوفانی رفتار سے چلنے والی ہواؤں نے آگ کے شعلوں کو مزید بھڑکا دیا ہے۔ چھ میں سے چار مقامات پر لگنے والی آگ پوری طرح بے قابو ہے۔ علاوہ ازیں، وسائل کی قلت اور مشکل علاقے کی وجہ سے بھی آگ بجھانے میں دشواری کا سامنا ہے۔
آگ پھیلنے کے اسباب
آگ سے متاثرہ علاقے میں گزشتہ سال کے اواخر سے بہت کم بارشیں ہوئی ہیں جس کے باعث موسم خشک ہو گیا ہے اور ان دنوں چلنے والی سانتانا ہواؤں کے سبب آگ پھیلنے کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ پہاڑوں سے گزرنے والی یہ ہوائیں درجہ حرارت کو بڑھاتی اور فضا میں نمی کے تناسب کو کم کر دیتی ہیں۔ اس طرح درخت خشک ہونے لگتے ہیں اور ان میں آگ لگنے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔
عالمی موسمیاتی ادارے (ڈبلیو ایم او) میں قدرتی آفات کی آمد سے متعلق بروقت آگاہی یقینی بنانے کے شعبے سے وابستہ جیمز ڈوریس نے کہا ہے کہ جنگلوں کی آگ تیزی سے پھیلتی ہے اور سبھی لوگوں کے لیے متاثرہ علاقوں سے انخلا کے نظام کی موجودگی ضروری ہے۔ اس ضمن میں معمر اور جسمانی معذوری کے حامل لوگوں کی ضروریات پر خاص توجہ دی جانی چاہیے۔
صحت کے لیے خطرات
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے جنگلوں کی آگ کے اثرات کو محدود رکھنے کے لیے موثر حکمت عملی بنانے کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ اس میں جنگلوں کے اندر خشک درختوں کی باقاعدگی سے صفائی، آگ بجھانے کے لیے مطلوبہ مقدار میں پانی کی دستیابی کو یقینی بنانا اور اس کام کی صلاحیتوں کو جانچنا خاص طور پر اہم ہے۔ علاوہ ازیں، متاثرہ علاقوں سے لوگوں کا انخلا بھی ایک اہم ترجیح ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ نقل مکانی کے راستوں پر کسی طرح کی رکاوٹیں نہیں ہونی چاہئیں۔
جنگلوں کی آگ صحت عامہ کے لیے بھی خطرہ ہوتی ہے۔ ڈبلیو ایچ او کی ترجمان ڈاکٹر مارگریٹ ہیرس کا کہنا ہے کہ اس آگ سے پیدا ہونے والے دھوئیں میں آلودہ ذرات کا زہریلا آمیزہ شامل ہوتا ہے۔ ایسی فضا میں زیادہ دیر سانس لینے سے قبل از وقت اموات اور پھیپھڑوں، دل اور دماغ کو طویل مدتی نقصان پہنچنے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ بچوں، معمر افراد اور دیرینہ بیماریوں میں مبتلا لوگوں کے لیے یہ خطرہ دوسروں سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔