سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہے۔ جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سڑک کے کنارے ایک مسجد کا گنبد دکھائی دے رہا ہے جب کہ لوگ افراتفری کے عالم میں ادھر ادھر بھاگ رہے ہیں۔ ویڈیو میں کچھ لوگوں کو سر پکڑے ہوئے اور اپنی جان بچاکر بھاگتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ یوزرس اس ویڈیو کو ہندوستانی مسلمانوں اور روہنگیا مسلمانوں کے درمیان لڑائی کے دعوے کے ساتھ شیئر کر رہے ہیں۔
دیپک کمار بنسل راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سویم سیو نامی یوزر نے لکھا، "روہنگیا مسلمان – ہندوستانی مسلمان لڑائی، روہنگیا مسلمانوں نے ہندوستانی مسلمانوں کی مسجد پر قبضہ کر لیا، کیونکہ روہنگیا انہیں کنورٹیڈ مسلمان سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ اس طرح آپس میں کٹ مریں گے لیکن ہندوستانی حکومت کو بنگلہ دیشی روہنگیا مسلمانوں کو بھی بھارت سے نکال دینا چاہیے۔
اس کے علاوہ دیگر یوزرس نے بھی ویڈیو شیئر کر اسی طرح کے دعوے کیے ہیں۔ جسے یہاں اور یہاں کلک
کر کے دیکھا جا سکتا ہے۔
فیکٹ چیک
ڈی فریک ٹیم نے وائرل ویڈیو کی پڑتال کی، ہمیں اس واقعے کے بارے میں اے این آئی، سیاست، زی نیوز اور انڈیا ٹوڈے سمیت کئی میڈیا رپورٹس ملیں، اے این آئی کی 3 جنوری 2023 کو شائع رپورٹ میں پولیس کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ آسام کے دھوبری ضلع میں بلاسی پارا علاقے میں ایک مسجد میں دو گروپوں میں تصادم کے بعد ایک شخص کی موت ہو گئی اور کئی دیگر زخمی ہو گئے
اس کے علاوہ انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ میں پولیس کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ آسام کے ضلع دھوبری میں مسجد کمیٹی کے دو گروپوں کے درمیان شدید تصادم میں ایک شخص ہلاک اور کم از کم 20 دیگر زخمی ہو گئے۔ پولیس کے مطابق یہ جھڑپیں 30 دسمبر 2022 کو دھوبری ضلع کے بلاسی پارا میں ہوئی تھیں۔ انڈیا ٹوڈے کی اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ تصادم مسجد مینجمنٹ کمیٹی میں ایک پوسٹ کو لے کر ہوا۔
اس کے علاوہ سیاست اور زی نیوز کی رپورٹس میں بھی اس واقعہ کے حوالے سے یہی معلومات دی گئی ہیں۔
نتیجہ
ڈی فریک کے فیکٹ چیک سے یہ واضح ہے کہ یوزرس نے ہندوستانی مسلمانوں اور روہنگیا مسلمانوں کے گروپوں کے درمیان جھڑپوں کے بارے میں گمراہ کن دعوے شیئر کیے ہیں۔ درحقیقت 30 دسمبر 2022 کو آسام کے دھوبری ضلع میں مسجد کمیٹی کے دو گروپوں کے درمیان شدید تصادم میں ایک شخص ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہو گئے تھے۔