عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کے باقی ماندہ ہسپتالوں میں اہم طبی سازوسامان تیزی سے ختم ہو رہا ہے اور فوری مدد نہ پہنچی تو بڑی تعداد میں زخمیوں اور بیمار لوگوں کا علاج ممکن نہیں رہے گا۔
فلسطین کے لیے ‘ڈبلیو ایچ او’ کے نمائندے ڈاکٹر رک پیپرکورن نے کہا ہے کہ ادارے نے ہسپتالوں کو بھاری مقدار میں ضروری طبی سامان مہیا کیا ہے لیکن یہ ضروریات کے مقابلے میں ناکافی ہے۔
غزہ سے جنیوا میں ہونے والی ‘ورلڈ ہیلتھ اسمبلی’ میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ ‘ڈبلیو ایچ او’ کو تل السلطان میں پناہ گزینوں کے کیمپ پر اسرائیل کے حملے پر شدید دکھ اور افسوس ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ میں کسی کے لیے کوئی جگہ محفوظ نہیں۔
ہولناک حملہ
امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) نے غزہ کے ایک فیلڈ ہسپتال کی ویڈیو جاری کی ہے جس میں ایک زخمی شخص روتے ہوئے بتا رہا ہے کہ کیسے اس کے بچے تل السلطان میں ہونے والے حملے میں مارے گئے تھے۔
محمد الغوف نامی اس شخص کا کہنا ہے کہ جب حملہ ہوا تو وہ اپنے بچوں کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ انہوں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ انہیں سپرمارکیٹ لے جا کر کچھ چیزیں خریدیں گے اور انہیں گلے لگائیں گے لیکن اب وہ اکیلے وہاں بیٹھے ہیں اور ان کے بچے نہیں رہے۔
اسی ویڈیو میں انٹرنیشنل میڈیکل کور (آئی ایم سی) کے فیلڈ ہسپتال کے میڈیکل ڈائریکٹر لاشوں کو دفنانے کے ہولناک کام کے بارے میں بتا رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس حملے میں مارے جانے والے ایک شخص کی لاش کو دیکھا جس کے ہاتھوں میں اس کے تین سالہ بچے کی لاش بھی موجود تھی۔ دونوں لاشیں اس قدر جل چکی تھیں کہ انہیں علیحدہ کرنا ممکن نہیں تھا۔ اس لیے انہیں ایک ہی تھیلے میں ڈال دیا گیا جو بہت مشکل فیصلہ تھا۔
جلے زخموں کا علاج ناپید
اس حملے کے بعد تقریباً 75 افراد کو ‘آئی ایم سی’ کے فیلڈ ہسپتال میں طبی امداد دی گئی جبکہ ان میں سے 25 کی حالت نازک تھی۔ میڈٰیکل ڈائریکٹر کے مطابق تشویشناک بات یہ ہے کہ ہسپتالوں میں ایسے زخمیوں کا علاج کرنے کے لیے درکار خصوصی سازوسامان اور ادویات میسر نہیں ہیں۔ رواں ماہ کے آغاز میں اسرائیل کی فوج نے رفح کی سرحد کو بند کر دیا تھا جس کے بعد علاقے میں امدادی طبی سامان کی فراہمی معطل ہے۔
ڈاکٹر پیپرکورن نے کہا ہے کہ غزہ بھر میں جلنے کے شدید زخموں کا علاج اس وقت کہیں بھی دستیاب نہیں ہے۔ رفح کی سرحد بند ہونے کے بعد کیریم شالوم کے راستے طبی امدادی سامان لے کر تین ٹرک ہی علاقے میں آئے ہیں۔ خوش قسمتی سے بنیادی نوعیت کا کچھ طبی سازوسامان اب بھی علاقے میں موجود ہے لیکن یہ بھی تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر بڑی تعداد میں امدادی ٹرکوں کو غزہ آنے کی اجازت مل جائے تو طبی سازوسامان کی کمی دور ہو سکتی ہے۔
امداد کی رسائی میں رکاوٹیں
ڈاکٹر پیپرکورن نے بتایا کہ رفح کی سرحد کے اُس پار مصری علاقے العریش میں ‘ڈبلیو ایچ او’ کے 60 ٹرک غزہ میں داخلے کی اجازت کے منتظر ہیں۔ ناصرف طبی امداد بلکہ دیگر انسانی امداد کی فراہمی کے لیے بھی رفح کی سرحد کا کھلا رہنا ضروری ہے۔
اگر پائیدار جنگ بندی عمل میں آئے، غزہ میں داخلے کے راستوں پر مناسب انتظام ہو، امدادی کارروائیوں کو حملوں سے تحفظ ملے تو مزید بہت کچھ ممکن ہے۔
‘ان کا کہنا ہے کہ ڈبلیو ایچ او’ نے پہلے ہی خبردار کر دیا ہے کہ اگر شدید زخمی اور بیمار لوگوں کو غزہ سے کسی اور جگہ منتقل کرنے کا انتظام نہ ہوا تو ان کی موت واقع ہو سکتی ہے۔ اس وقت علاقے میں 10 ہزار سے زیادہ لوگوں کو ہنگامی طبی مدد کی ضرورت ہے تاہم رفح کی سرحد بند ہونے کے باعث انہیں منتقل کرنا ممکن نہیں جبکہ اس سے پہلے بھی مریضوں کو غزہ سے باہر لے جانا بہت مشکل کام تھا۔