’کشمیر میڈیا سروس-KMS‘ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ ایک میڈیا ادارہ ہے، جو کشمیر سے متعلق واقعات اور نیوز کو کور کرتا ہے۔ یہ کشمیر میں سیاسی، سماجی، حقوقِ انسانی اور واقعاتِ مقامی کی رپورٹنگ پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ یہ اردو اور انگریزی میں خبریں شائع کرتا ہے۔ لیکن؛ کیا واقعی KMS میڈیا ادارہ ہے یا پھر میڈیا کے پسِ پردہ کوئی پروپیگنڈہ ادارہ ہے، جو کشمیر سے متعلق گمراہ کُن اور فیک نیوز کے ذریعے عوام کو غلط معلومات پہنچانے کا کام کرتا ہے۔ زیر نظر DFRAC کے رپورٹ میں ہم KMS کا تفصیلی تجزیہ کر رہے ہیں۔
کیا ہے ’کشمیر میڈیا سروس-KMS‘؟
KMS پاکستان سے چلنے والا مبینہ ایک آن لائن نیوز پورٹل ہے، جو فعال طر پور بھارت کے واقعات کو گمراہ کُن ڈھنگ سے اور ’کشمیری علاحدگی پسند‘ حامی، کنٹینٹ (مواد) پوسٹ کرتا ہے۔ یہ کشمیر کے علاحدگی پسند خیمے کا ترجمان معلوم ہوتا ہے۔ پاکستانیوں اور علاحدگی پسندوں کے نقطۂ نظر کو مضبوط ڈھنگ سے پیش کرتا ہے۔ KMS کا گوگل پر URL- https://www.kmsnews.org ہے۔ جب اس URL کی DFRAC ٹیم نے جانچ-پڑتال کی تو پایا کہ اس کا لوکیشن، پاکستان کی ریاست پنجاب میں واقع شہر گوجرانوالہ ہے، جسے نیچے دیے گئے اسکرین شاٹ میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
KMS کا ایڈیٹر کون ہے؟
DFRAC ٹیم نے KMS کی ویب سائٹ پر About کو دیکھا، لیکن یہاں اس کے ایڈیٹر اِن چیف (مدیر اعلیٰ)، ایڈیٹر اور ٹیم کے دیگر اراکین کے بارے میں معلومات نہیں دی گئی ہے۔ جس کے بعد ہم نے اس ویب سائٹ پر کچھ میڈیا رپورٹس دیکھیں۔ ہمیں ویب سائٹ پر 3 مئی 2022 کو شائع ایک رپورٹ ملی۔ اس رپورٹ میں رئیس احمد میر نامی شخص کا نام بطور ایڈیٹر ذکر کیا گیا ہے۔
کون ہے رئیس احمد میر؟
ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق رئیس احمد میر بنیادی طور پر ضلع بارہمولہ کے سوپور کا رہنے والا ہے۔ وہ فی الحال پاک مقبوضہ کشمیر (POK) میں مقیم ہے۔ میر KMS پر انسانی حقوق سے متعلق مضامین لکھتا ہے، جن میں وہ کشمیر میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے اعدادوشمار دیتا ہے۔
KMS کی ویب سائٹ پر کنٹینٹ
KMS کی ویب سائٹ پر کئی سیکشن ایسے بنے ہیں، جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ ویب سائٹ کشمیر پر مبنی پروپیگنڈے کے لیے بنائی گئی ہے۔ انہی سیکشن میں IIOJK in focus, Voices of IIOJK, AJK, Kashmiri diaspora اور India شامل ہیں۔ ان سیکشن میں یہ بات قابل غور ہے کہ اس ویب سائٹ پر آزاد کشمیر اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر (بھارت مقبوضہ کشمیر) جیسے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، جو اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ ویب سائٹ کشمیر کے مسئلے پر پاکستانی پروپیگنڈے کے لیے بنائی گئی ہے۔
کشمیری علاحدگی پسندوں کی کوریج:
KMS پر زیادہ تر کوریج کشمیر کے علاحدگی پسند رہنماؤں اور ان کی سرگرمیوں کے بارے میں رہی ہے۔ KMS کی ویب سائٹ پر کل جماعتی حریت کانفرنس کی پاکستان میں ہونے والی سرگرمیوں کی رپورٹ دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ کئی رپورٹس میں دہشت گرد افضل گرو اور مقبول بھٹ کو شہید قرار دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی انسانی حقوق کی متعدد رپورٹس میں من گھڑت دعوے کیے گئے ہیں۔؎
KMS کی فیک نیوز پر پاکستانی میڈیا کی کوریج:
KMS خود کو کشمیر میں قائم میڈیا ادارہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور کشمیر پر انسانی حقوق کی رپورٹس شائع کرتا ہے۔ لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ اس کی رپورٹس؛ جعلی ذرائع (Fake Sources) پر مبنی، بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے اور گمراہ کُن معلومات پر مشتمل ہوتی ہیں۔
KMS کی ویب سائٹ پر کشمیر میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں، کشمیری عوام پر ظلم و تشدد کے حوالے سے کئی رپورٹس شائع کی گئی ہیں۔ پاکستان کے کئی میڈیا اداروں نے انہی رپورٹس پر مبنی خبریں بھی شائع کی ہیں جن میں ڈان، جیو نیوز، اے آر وائی نیوز سمیت کئی بڑے میڈیا ادارے شامل ہیں۔
KMS کی فیک رپورٹس پر پاکستانی میڈیا کی کوریج کا ایک مشترکہ خاصہ یوں دیکھا جا سکتا ہے کہ KMS نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ 10 لاکھ سے زیادہ بھارت کے فوجی، کشمیریوں کی آواز کو دبانے میں سرگرم عمل ہیں۔ اس خبر کو پاکستان آبزرور، دی نیشن اور ریڈیو صدائے حریت سمیت کئی پاکستانی میڈیا اداروں نے کوریج دی ہے۔
تاہم، اگر اس خبر کی حقیقت کی جانچ-پڑتال کی تو ’دی وائر‘ اور ’نوبھارت ٹائمس‘ سمیت کئی میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ کشمیر میں ایک لاکھ 30 ہزار تک بھارتی فوجی، تعینات ہیں، جن میں سے 80 ہزار فوجی سرحد پر تعینات ہیں۔ وہیں، راشٹریہ رائفل کے تقریباً 40000-45000 فوجی، کشمیر کے اندرونی علاقوں میں انسداد دہشت گردی مہم کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں۔
کیا KMS کی مبینہ انسانی حقوق سے متعلق رپورٹس میں کوئی سچائی ہے؟ یہ سوال یہاں اس لیے اٹھ رہا ہے کیونکہ DFRAC نے پایا کہ ان رپورٹس میں حقائق سے پرے، جعلی اور گمراہ کُن اطلاعات دی گئی ہیں، جن کی پاکستانی میڈیا نے توسیع کی ہے۔ یہاں ہم KMS کی کچھ رپورٹس کا تجزیہ پیش کر رہے ہیں۔
سنہ 2021 میں 210 کشمیریوں کی موت کے جعلی اعداد و شمار
KMS نے ایک رپورٹ، سرخی- ’Indian troops martyred 210 Kashmiris in 20‘ کے تحت شائع کی ہے۔ اس رپورٹ میں 210 کشمیریوں کے قتل کے حوالے سے کسی بھی قانونی ذرائع کا حوالہ نہیں دیا گیا ہے اور اسی رپورٹ کی بنیاد پر ڈان، جیو نیوز، ARY نیوز اور دنیا نیوز نے بھی خبر شائع کی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ حکومت ہند نے پارلیمنٹ میں بتایا تھا کہ 5 اگست 2019 سے 4 اگست 2022 کے مابین دہشت گردی کے 617 واقعات ہوئے، جن میں 174 فوجی شہید اور 110 شہریوں کی موت ہوئی تھی۔
اس رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ بھارتی حکام نے کشمیریوں کو سری نگر کی تاریخی جامع مسجد میں 45 ہفتوں تک نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اس کے علاوہ کشمیر میں محرم کے جلوس اور عید میلاد النبی ﷺ پر مذہبی تقریبات کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔
یہ دعویٰ بھی جھوٹ ہے کیونکہ DFRAC نے عید میلاد النبیﷺ پرایک تفصیلی رپورٹ شائع کی تھی، جس میں ہم نے حقائق اور تصاویر کے ساتھ بتایا تھا کہ عید میلاد النبیﷺ کے موقع پر وادی میں مذہبی مقامات پر عبادت کی گئی تھی اور کشمیری عوام نے امن و سکون کے ساتھ اپنا تہوار منایا تھا۔ یہاں، تہوار منائے جانے کی تصویروں کے میڈیا کوریج کا اسکرین شاٹ پیش دیا جا رہا ہے۔
96000 کشمیریوں کے قتل کا جھوٹا الزام:
KMS نے سنہ 2020 میں ایک رپورٹ شائع کی تھی۔ رپورٹ میں الزام لگایا گیا تھاکہ جنوری 1989 سے 2020 تک تین دہائیوں میں بھارتی فوج نے 95728 کشمیریوں کو قتل کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا تھاکہ ہندوستانی فوجیوں نے 11231 خواتین کے ساتھ چھیڑخانی کی یا ان کی توہین کی۔ اس رپورٹ کو پاکستان کے جیو نیوز، ڈیلی ٹائمس اور دی نیوز نے شائع کی ہے۔
KMS کی اس گمراہ کُن رپورٹ کی حقیقت یہ ہے کہ بھارتی وزیر داخلہ امت شاہ نے پارلیمنٹ میں بتایا تھا کہ کشمیر میں اب تک کل 45 ہزار افراد کی موت ہوئی ہے، جن میں تمام برادریوں کے افراد شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر میں 45 ہزار لوگوں کی موت کا ذمہ دار آرٹیکل 370 تھا، جسے وزیر اعظم مودی نے اکھاڑ کر پھینک دیا۔
KMS کی اردو سروس:
کشمیر میڈیا سروس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو بھارت میں وِتھہیلڈ (ممنوع)کر دیا گیا ہے، حالانکہ اس کی اردو سروس کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ چل رہا ہے اور وہ اس ہینڈل کے ذریعے کشمیر کے تناظر میں جعلی (Fake) اور گمراہ کُن معلومات شیئر کر رہا ہے۔مائکرو بلاگنگ سائٹ ایکس (X) پلیٹ فارم پر اس کا اکاؤنٹ KMS اردو (@KMS_IIOJK) کے نام سے چل رہا ہے۔
کشمیر میڈیا سروس/ گمراہ کُن نیوز
یہاں ہم ’کشمیر میڈیا سروس‘ کی جانب سے کشمیر اور دیگر بھارتی ریاستوں سے متعلق پھیلائے گئے فیک اور گمراہ کُن اطلاعات کا فیکٹ چیک پیش کر رہے ہیں۔
فیک/ گمراہ کُن نیوز۔۱
این آئی ٹی سری نگر میں تنازعہ پر، KMS نے دعویٰ کیا کہ قابل اعتراض ویڈیو پوسٹ کرنے کے سبب این آئی ٹی سری نگر کے طالب علم کے خلاف یکم دسمبر 2023 کو کشمیر میں مکمل بند رکھا گیا تھا۔
فیکٹ چیک:
کشمیر میں شٹ ڈاؤن کے کسی اعلان کے حوالے سے کوئی میڈیا رپورٹ شائع نہیں کی گئی تھی۔ مزید برآں، جموں و کشمیر ڈیجیٹل نیوز پلیٹ فارم ’دی کشمیر کنیکٹ‘ (@KASHMICO) کی جانب سے پوسٹ کیے گئے ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کوئی شٹ ڈاؤن نہیں کیا گیا تھا۔
فیک/ گمراہ کُن نیوز۔۲
KMS نے دعویٰ کیا کہ بھارتی فوج نے ضلع ریاسی میں 3 بے گناہ کشمیری نوجوانوں کو گرفتار کیا ہے۔
فیکٹ چیک:
ٹائمس آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، ایک کامیاب مشترکہ انسداد انتہا پسندی مہم میں، سیکورٹی فورسز نے جموں و کشمیر کے ریاسی ضلع میں تین مشتبہ دہشت گردوں کو گرفتار کیا ہے، جن کے پاس سے بے حساب نقد روپیے برآمد ہوئے ہیں۔
نتیجہ:
پاکستان کے زیر اہتمام KMS، کشمیر سے متعلق مسائل پر جھوٹے، گمراہ کُن حقائق اور از خود مرتب کردہ من گھڑت ریسرچ شائع کرتا ہے۔ اس ویب سائٹ کے کنٹینٹ (مواد) سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ علاحدگی پسندوں کو کشمیریوں کے حقیقی نمائندے کے طور پر پیش کرکے مقامی اور بین الاقوامی سطح پر لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے۔ اس کے رپورٹس میں اکثر فیک اور گمراہ کُن اطلاعات رہتی ہیں، جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ یہ میڈیا ادارہ کشمیر پر پاکستانی ایجنڈے کو فروغ دینے کے لیے پروپیگنڈا کرتا ہے۔