سوشل میڈیا پر ایک اخبار کا تراشہ شیئر کیا جا رہا ہے۔ ہیڈلائن،’راہل نے مانا، کانگریس ہے مسلم پارٹی‘ کے تحت اس خبر میں لکھا گیا ہے کہ جموں و کشمیر سے شائع ہونے والے اردو روزنامہ انقلاب نے انکشاف کیا ہے کہ راہل گاندھی نے مسلم دانشوروں کے ساتھ ایک خفیہ ملاقات میں کہا کہ کانگریس مسلمانوں کی پارٹی ہے۔ راہل گاندھی نے گجرات کی مندروں میں جانے پر مسلم رہنماؤں سے معافی مانگی تھی۔ راہل گاندھی نے مسلم پرسل لاء بورڈ سے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ 2019 میں وزیراعظم بنے تو ہر ضلع میں شریعہ کورٹ کھولنے کی مانگ، پوری ہوگی۔
مِرایا گاندھی واڈرا نامی ایک پیروڈی اکاؤنٹ نے ٹوئٹر پر ایک ہندی اخبار کا تراشہ شیئر کیا اور کیپشن میں لکھا،’2024 میں پتہ چل جائے گا کہ سناتن دھرم کیا ہے اور کتنا طاقتور ہے! تم لوگوں کے رہتے بی جے پی کبھی ہار نہیں سکتی۔#सनातन_धर्म_ही_सर्वश्रेष्ठ_है #SanatanDharma #INDIAAlliance #उदय_निधि_को_गिरफ्तार_करो #CongressMuktBharat ‘۔
Tweet Archive Link
فیکٹ چیک:
متذکرہ بالا اخباری تراشے کی حقیقت جاننے کے لیے DFRAC کی ٹیم نے سب سے پہلے اردو اخبار انقلاب کی ویب سائٹ وزٹ کی۔ ٹیم نے پایا کہ اردو اخبار انقلاب کی بنیاد 1938 میں مرحوم عبدالحمید انصاری نے رکھی تھی، جو ایک مجاہد آزادی اور ماہر تعلیم تھے۔ یہ مڈ-ڈے انفومیڈیا لمیٹیڈ کا ایک حصہ ہے۔ شمالی ہندوستان میں، انقلاب دہلی، لکھنؤ، وارانسی، میرٹھ، علی گڑھ، بریلی، گورکھپور، کانپور، الہ آباد، پٹنہ، مظفر پور اور بھاگلپور سے نکلتا ہے۔ اس کا ابھی تک جموں و کشمیر ایڈیشن نہیں ہے۔
جب DFRAC کی ٹیم نے 12 جولائی 2018 کو انقلاب کی شائع کردہ خبر کو پڑھا تو پتہ چلا کہ راہل گاندھی نے گجرات میں مندروں کا دورہ کرنے پر مسلم رہنماؤں سے معافی مانگنے اور ہر ضلع میں شرعی عدالتیں کھولنے کا کوئی ذکر تک نہیں ہے۔
بعد ازاں، ٹیم نے مندرجہ بالا دعوے کے تناظر میں گوگل پر کچھ کی-ورڈ سرچ کیا اور پایا کہ راہل گاندھی کے بارے میں اس طرح کے فیک نیوز کی شروعات اس طرح ہوئی تھی کہ راجیہ سبھا کے سابق رکن، سینئر صحافی اور موجودہ راشٹریہ لوک دل (RLD) کے رہنما شاہد صدیقی نے 12 جولائی 2018 کو ٹویٹر پر روزنامہ انقلاب کی رپورٹ اور اس کی صداقت پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔
انہوں نے ٹویٹر پر اخبار کا تراشہ (تصویر) شیئر کیا، جس کا عنوان تھا،’ہاں! کانگریس مسلمانوں کی پارٹی ہے‘۔ انہوں نے لکھا،’اردو روزنامہ انقلاب نے راہل گاندھی کے حوالے سے لکھا ہے،’ہاں کانگریس ایک مسلم پارٹی ہے‘۔ کیا یہ اقتباس درست ہے یا پارٹی اس کی تردید کرے گی؟ مسلمان، کوئی مسلم پارٹی نہیں چاہتے، وہ ایک قومی سیکولر پارٹی چاہتے ہیں، جو شہریوں کے درمیان تفریق نہ کرے۔ (اردو ترجمہ)
اس وقت کانگریس پارٹی کے رہنماؤں نے فوری طور پر اس رپورٹ کو مسترد کر دیا۔ کانگریس کی سابق رہنما پرینکا چترویدی نے 13 جولائی کو ٹویٹ کیا تھا اور اسے ’اخبار کی طرف سے سراسر جھوٹ اور شرمناک رپورٹنگ‘ قرار دیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مورخ ایس عرفان حبیب نے 13 جولائی 2018 کو ٹویٹ کیا کہ وہ میٹنگ میں موجود تھے، جس کے بارے میں رپورٹ کیا گیا ہے اور میٹنگ کے دوران ایسا کوئی مسئلہ سامنے آیا ہی نہیں تھا۔
واضح رہے کہ مذکورہ دعویٰ اے بی پی نیوز کے لوگو والی گرافیکل امیج کے طور پر پہلے بھی وائرل ہو چکا ہے، جس کی تردید اے بی پی نیوز کے آفیشل ٹویٹر اکاؤنٹ نے 12 نومبر 2018 کو ایک ٹویٹ میں کی تھی۔ اے بی پی نیوز نے لکھا تھا کہ ہمارے چینل کی ٹیمپلیٹ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے۔ راہل گاندھی کے بیان جو ان تصویروں میں ہیں وہ، اے بی پی نے رپورٹ نہیں کیے ہیں اور نہ ہی ان کا اے بی پی نیوز نیٹ ورک سے کوئی تعلق ہے۔
نتیجہ:
زیر نظر DFRAC کے اس فیکٹ چیک سے واضح ہے کہ راہل گاندھی کا مسلمانوں کی پارٹی بتانے، گجرات میں مندر جانے پر مسلمانوں سے معافی مانگنے اور PM بننے پر ہر ضلع میں شریعہ کورٹ کھولنے کا دعویٰ کرنے والی وائرل نیوز کٹنگ گمراہ کُن ہے، کیونکہ میٹنگ میں موجود افراد اور کانگریس کے رہنماؤں نے اس کی تردید کی تھی۔