کشمیر کا ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ہے۔ ویڈیو میں کچھ مسلم طالبات کو اسکول کے اسٹیج سے بھجن گاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، جبکہ دیگر طالبات زمین پر بیٹھ کر بھجن سنتے ہوئے نظر آ رہی ہیں۔
سوشل میڈیا یوزرس دعویٰ کر رہے ہیں کہ- ’کشمیر کے ایک سیکنڈری اسکول میں مسلم لڑکیوں کو ہندو پرارتھنا (دعا) پڑھنے پر مجبور کیا جاتا ہے‘۔
Source: Twitter
Source: Twitter
تعلقات عامہ (پی آر) کے ماہر غلام نبی فئی (@ghulamnabifai) نے بھی ویڈیو کے بارے میں لکھا،’#Kashmir کے ایک اسکول کی مسلم لڑکیوں کو #Hindu پرارتھنا (دعا) پڑھنے پر مجبور کیا گیا۔ @NazilaGhanea ’تعصب اور تشدد کے ایک آلے کے طور پر #مذہب یا عقیدے کے غلط استعمال کی مذمت کرتا ہے۔ اس کے نفاذ میں دانتوں کو جوڑنے کی عجلت۔ @narendramodi کا کشمیر میں معمولات زندگی سے متعلق رویہ بے حس ہے۔ @antonioguterres @potus‘۔
Source:Twitter
ویب سائٹ دی اسلامک انفارمیشن پر ایک خبر ملی جس میں مذکورہ دعویٰ شیئر کیا گیا ہے۔
Source: theislamicinformation
فیکٹ چیک:
DFRAC ٹیم نے شیئر کیے گئے ویڈیو کی جانچ-پڑتال کی اور پایا کہ یہ ویڈیو جنوبی کشمیر میں پہلگام کے سلر میں واقع گرلس ہائی اسکول کا ہے، جس میں ایک ہندو لڑکی گنیش آرتی پڑھ رہی ہے۔ آڈینس میں ہندو اور مسلم دونوں لڑکیاں شامل ہیں۔
ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بچیوں کے گنیش وندنا ختم کرنے کے بعد ٹیچر نے طالبہ سے کہا کہ وہ بھگوان گنیش کی اہمیت بتائے۔
ایک ٹیچر کی مدد سے طالبہ نے اپنے ساتھیوں کو سمجھایا کہ چونکہ بھگوان گنیش کو سب سے بڑا دیوتا مانا جاتا ہے، اس لیے ہم گنیش وندنا پڑھتے ہیں اور کوئی بھی کام شروع کرنے سے پہلے ان کی مورتی پر چندن کا پیسٹ لگاتے ہیں۔
TV9 نیٹ ورک کے ایگزیکٹو ایڈیٹر آدتیہ راج کول نے بھی ویڈیو شیئر کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ- ’گرلس ہائی اسکول، سلر، پہلگام، جنوبی کشمیر میں گنیش آرتی کا خوبصورت پاٹھ‘۔
Source:Twitter
ہماری ٹیم کو ویب سائٹ گراؤنڈ نیوز کی طرف سے 19 اگست کو شائع، ایک خبر ملی، جس میں اسے کور کیا گیا تھا۔ نیوز میں مسلم لڑکیوں کو ہندو پرارتھنا پڑھنے پر مجبور کرنے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
Source: Groundnews
ہم نے یہ بھی پایا کہ جس اکاؤنٹ نے ویڈیو کو وائرل دعوے کے ساتھ شیئر کیا تھا، وہ مزمل ایوب ٹھاکر (@M_A_Thakur) کا ہے۔ بھارت میں ٹویٹر نے اس اکاؤنٹ پر پابندی عائد کر دی ہے۔
Source: Twitter
نتیجہ:
زیر نظر DFRAC کے فیکٹ چیک سے واضح ہے کہ ویڈیو کو گمراہ کُن دعوے کے ساتھ شیئر کیا جا رہا ہے۔ ویڈیو میں کسی بھی اسکول اتھارٹی کی طرف سے کوئی زور-زبردستی کی سرگرمی کا ثبوت نہیں ہے۔