سوشل میڈیا پر ایک گرافیکل امیج شیئر کیا جا رہا ہے۔ اس میں جلی حرفوں میں لکھا ہے کہ-’ڈنمارک میں مسلم کمیونٹی کے ووٹ دینے کے حق کو سلب کرنے والا قانون کیا گیا پاس، اسے کہتے ہیں: سیکولرزم کی خالص نس بندی‘۔ یوزرس اس پوسٹر کو شیئر کرتے ہوئے اسے ڈنمارک کا درست فیصلہ قرار دے رہے ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ بھارت میں بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔
منوج شریواستو نامی یوزر نے گرافیکل امیج کو ٹویٹ کرکے لکھا،’بالکل صحیح فیصلہ ہے۔ بھارت میں بھی ایسا ہی ہونا چاہیے‘۔
Tweet Archive Link
منوج شریواستو کے اس ٹویٹ کو 1500 سے زیادہ ری ٹویٹس، تقریباً 4000 لائکس ملے ہیں، جبکہ اسے 30 ہزار سے زیادہ یوزرس نے ملاحظہ کیا ہے۔
دریں اثنا، دیگر یوزرس بھی اسی طرح کے دعوے کے ساتھ گرافیکل امیج شیئر کر رہے ہیں۔
Tweet Archive Link
Tweet Archive Link
Tweet Archive Link
فیکٹ چیک:
گرافیکل امیج کے ذریعے کیے جانے والے دعوے کی حقیقت جاننے کے لیے DFRAC ٹیم نے کچھ کی-ورڈ کی مدد سے گوگل سرچ کیا۔ اس دوران ہمیں کہیں کسی میڈیا ہاؤس کی جانب سے پبلش ایسی کوئی نیوز نہیں ملی۔
البتہ، ہمیں کچھ میڈیا رپورٹس ایسی ملیں، جن میں بتایا گیا ہے کہ ڈنمارک کی پارلیمنٹ نے اکتوبر 2019 میں شہریت سے متعلق قانون پاس کیا تھا۔ اس قانون کے مطابق حکومت شام اور عراق میں اسلامک اسٹیٹ کے لیے جنگ میں شامل ہونے والے انتہا پسندوں کی شہریت بغیر کسی عدالتی مقدمے (کورٹ ٹرایل) کے چھین سکتی ہے۔
وہیں ڈنمارک پارلیمنٹ کی ویب سائٹ پر بھی DFRAC کو ایسی کوئی معلومات نہیں ملی کہ پارلیمنٹ نے کوئی ایسا قانون پاس کیا ہے کہ اب مسلمان شہریوں کو ووٹ کا حق حاصل نہیں ہوگا۔
ڈنمارک میں ووٹ دینے کے لیے شہری کی عمر کم از کم 18 سال ہونی چاہیے۔ ووٹ دینے والے شخص کا ڈنمارک، گرین لینڈ یا آئی لینڈ کا رہائشی ہونا ضروری ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ڈنمارک میں مسلم کمیونٹی کے ساتھ انتہائی سخت سلوک کیا جاتا ہے۔
نتیجہ:
زیر نظر DFRAC کے فیکٹ چیک سے واضح ہے کہ ڈنمارک نے مسلمانوں سے ووٹ کا حق چھیننے کے لیے کوئی قانون نہیں بنایا ہے، اس لیے سوشل میڈیا یوزرس کا دعویٰ غلط ہے۔