بھارت میں اپریل کے مہینے میں مختلف تہوار منائے جا رہے ہیں، جہاں ایک کمیونٹی رام نومی مناتی نظر آئی تو وہیں دوسری کمیونٹی رمضان، تیسری کمیونٹی مہاویر جینتی، اور چوتھی کمیونٹی گُڈ فرائیڈے۔
دریں اثنا، کییا گھوش نامی ایک ویریفائیڈ اکاؤنٹ کی جانب سے ٹویٹر پر دعویٰ کیا گیاکہ پریسیڈنسی کالج کے ایڈن ہندو ہاسٹل نے رمضان کے موقع پر افطار کا اہتمام کیا، لیکن کیمپس کے اندر سرسوتی پوجا کی اجازت نہیں دی گئی۔
کییا گھوش کے ٹویٹر بایو کے مطابق، وہ بی جے پی بنگال کی انڈیا فرسٹ میڈیا پینلسٹ ہیں۔
Source: Twitter
انہوں نے افطار کی تصویریں شیئر کرتے ہوئے لکھا،’پریسیڈنسی کالج کے ایڈن ہندو ہاسٹل میں دعوتِ افطار۔ براہ کرم، یاد رکھیں، پریسیڈنسی یونیورسٹی نے کیمپس کے اندر سرسوتی پوجا کی اجازت نہیں دی کہ یہ ادارے کی ’سیکولر‘ فطرت کے خلاف ہے‘۔ (اردو ترجمہ)
اس ٹویٹ نے فوری طور پر سوشل میڈیا یوزرس کی توجہ پا لی۔ اسے تین ہزار سے زیادہ ری ٹویٹ کیا گیا اور تقریباً سات ہزار لائک مل گئے۔
فیکٹ چیک:
وائرل دعوے کی حقیقت جاننے کے لیے DFRAC ٹیم نے گوگل پر اس تناظر میں کچھ کی-ورڈ سرچ کیا، اس دوران ہمیں ایڈن ہندو ہاسٹل میں سرسوتی پوجا سے متعلق معلومات ملی۔ ہمیں ’اِسٹینڈ وِد ہندو ہاسٹل‘ نامی فیس بک پیج پر بنگالی زبان میں کیا گیا ایک پوسٹ ملا، جس میں مبینہ طور پر سرسوتی پوجا کی تصویریں دکھائی گئی ہیں۔
جب ٹیم نے ٹویٹ کے کمینٹ سیکشن کو اسکرول کیا تو انھیں کئی لوگوں کو ایڈن ہندو ہاسٹل میں منعقدہ سرسوتی پوجا کی تصویریں شیئر کرتے پایا۔ یہ بھی بتایا گیا کہ یہ پوجا ہر سال ہوتی ہے۔
سرچ کے دوران ہم نے مزید پایا کہ ایڈن ہندو ہاسٹل کا کیمپس پریسیڈنسی یونیورسٹی کیمپس سے متصل نہیں ہے اور یہ پانچ سو میٹر کی مسافت پر ہرے اسکول، کلکتہ یونیورسٹی اور در بھنگہ بھون جیسے اداروں کے مابین واقع ہے۔
وہیں ای ٹی وی بھارت کی رپورٹ کے مطابق مغربی بنگال پریسیڈنسی یونیورسٹی سنہ 2016 سے کیمپس کے اندر کسی بھی مذہبی سرگرمی کی اجازت نہیں دیتی ہے۔
نتیجہ:
زیرِ نظر DFRAC کے فیکٹ چیک سے یہ واضح ہے کہ ایڈن ہندو ہاسٹل کے کیمپس میں سرسوتی پوجا اور افطار دونوں منعقد کیے گئے تھے، ساتھ ہی پریسیڈنسی یونیورسٹی اور ایڈن ہندو ہاسٹل دو الگ الگ ادارے ہیں۔ پریسیڈنسی یونیورسٹی، کیمپس کے اندر کسی قسم کی مذہبی رسومات کی اجازت نہیں دیتی، اس لیے کییا گھوش کا دعویٰ غلط ہے، جنھیں پی ایم مودی بھی فالو کرتے ہیں۔