سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو خوب وائرل ہو رہا ہے۔ اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بازار میں ایک شخص کو کچھ لوگ لاٹھی-ڈنڈوں سے پیٹ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا یوزرس کا دعویٰ ہے کہ جس شخص کی پٹائی ہو رہی ہے، وہ مسلمان ہے او ہندو لڑکی کو چھیڑ رہا تھا، جس کے بعد ہندو افراد نے اس کی جم کر پٹائی کر دی۔
اس ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے ایک یوزر نے لکھا-’جمبوسر تعلقہ، ضلع بھروچ، گجرات میں مسلم لڑکے نے ایک ہندو لڑکی کو چھیڑا، پھر 5-6 ہندو شیروں نے بھرے بازار میں مسلم علاقے میں گھس کر لَو-جہادی بکرے کو روڈ پر گھسیٹ کر پیٹا* *ایسے ہی بجاتے رہو ہندو شیرو..* *جے شری رام‘۔
وہیں ایک یوزر نے لکھا،’کچھ احمقوں کا کہنا تھا کہ بی جے پی کو ووٹ دینے سے کیا ہوتا ہے، تو نتیجہ سامنے ہے، جمبوسر تعلقہ، ضلع بھروچ، گجرات، مسلم لڑکے نے ہندو کی لڑکی کو چھیڑا تو پانچ-چھ ہندو شیروں نے بھرے بازار میں مسلمان ایریا میں گھس کر جہادی کو روڈ پر گھسیٹ کر پیٹا۔ ایسے ہی بجاتے رہو ہندو شیرو۔ جے شری رام‘۔
وہیں اس ویڈیو کو دیگر یوزرس کی جانب سے بھی اسی طرح کے دعووں کے ساتھ شیئر کیا جا رہا ہے۔
فیکٹ چیک:
وائرل ویڈیو کی حقیقت جاننے کے لیے DFRAC کی ٹیم نے ویڈیو کے کچھ فریمس کو ریورس سرچ کیا۔ ہمیں News18 India کے یوٹیوب چینل پر اپلوڈ ایک ویڈیو ملا۔ اس ویڈیو میں دی گئی تفصیلات کے مطابق۔’غلط کام کی تو ایسی ہی سزا ملنی چاہیے #shorts گجرات کے بھروچ میں ایک لڑکی کو چھیڑنے کے الزام میں لڑکے کو آس پاس کے لوگوں نے وہیں سبق سکھایا اور سڑک کے بیچوں بیچ اس کی خوب پٹائی کی، جی ہاں، جس وقت یہ پٹائی ہو رہی تھی، وہاں موجود ایک آدمی نے اس کا ویڈیو بنا لیا، جو اب سوشل میڈیا پر وائرل ہے‘۔
وہیں ہمیں ’گجرات مرر‘ کا ایک ٹویٹ ملا۔ اس ٹویٹ میں بتایا گیا ہے کہ لڑکی سے چھیڑ خانی کرنے پر ایک شخص کی پٹائی کی گئی۔
بعد ازاں ہماری ٹیم نے بھروچ کے واقعہ کے تناظر میں کچھ کی-ورڈ سرچ کیا۔ ہمیں ’دیویہ بھاسکر‘ کی گجراتی زبان میں پبلش ایک رپورٹ ملی۔ اس رپورٹ کا اردو ترجمہ کرنے پر واقعہ کی تفصیل سامنے آئی کہ- ’ضلع بھروچ کے جمبوسر کے اہم بازار سے گذر رہی طالبہ سے چھیڑخانی کرنے والے تاجر کی مقامی افراد نے پٹائی کر دی، جس کا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اس معاملے میں پولیس کے پہنچنے سے پہلے ہی مقامی لوگوں نے تاجر کو معافی نامہ لکھ کر معاملے کو سلجھا لیا‘۔
نتیجہ:
DFRAC کے فیکٹ چیک میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس واقعہ میں کوئی کمیونل اینگل نہیں ہے، کیونکہ اس واقعہ کے حوالے سے دستیاب میڈیا رپورٹس میں ملزم اور متاثرہ کے مذہب کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ ساتھ ہی اس واقعہ میں ہندو مسلم اور فرقہ وارانہ اینگل سے کوئی کوریج دستیاب نہیں ہے، اس لیے سوشل میڈیا یوزرس کا دعویٰ غلط ہے۔