انٹرنیٹ پر ایک احتجاجی جلوس کا ویڈیو وائرل ہو رہاہے۔ ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے سوشل میڈیا یوزرس دعویٰ کر رہے ہیں کہ یہ آسام کےاحتجاج کا ویڈیو ہے، جہاں بنگلہ دیش کے مسلمان الگ ملک کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے @SudhirKumarSuri نے کیپشن لکھا، ” آسام میں بنگلہ دیشی مسلمانوں نے الگ ملک بنانے کے لیے جلوس نکالا اور ان کا حال دیکھیے“۔
فیکٹ چیک:
ویڈیو سے لیے گئے کچھ اسکرین شاٹس کو ریورس امیج سرچ کرنے پر، ہمیں یہی ویڈیو @Sourabh3507 کے ٹویٹر ہینڈل پر ملا۔ انہوں نے یہ ویڈیو 9 جون 2021 کو اس کیپشن کے ساتھ اپ لوڈ کیا تھا، ”پرم آدرنیہ (نہایت ہی قابل احترام) آسام کے وزیراعلیٰ ہندو ہِردَیہ سمراٹ ہیمنت وشو شرما جی نے بنگلہ دیشیوں کی طبیعت سے ٹھکائی کروائی۔ کیوں؟؟؟ یہ جاننے کے لیے ویڈیو دیکھیں“۔
علاوہ ازیں ہماری ٹیم نے پایا کہ یہ ویڈیو 2017 سے پھیلایا جا رہا تھا۔ وہیں ہمیں نیوز کلنک کی ایک رپورٹ ملی، جس میں اسی تصویر کا استعمال کیا گیا تھا۔ رپورٹ کی سرخی تھی،”آسام کے گول پارہ میں پولیس فائرنگ میں مسلم شخص کی موت“۔
نتیجہ:
دونوں تصاویر ایک ہی واقعہ کی ہیں، لہٰذا ویڈیو کے حوالے سے کیا گیا دعویٰ فرضی ہے۔ یہ ویڈیو آسام کے گول پارہ میں حکومت کی طرف سے لگائے گئے ‘مشکوک شہری اور ووٹر’ ٹیگ کے خلاف احتجاج کر نے والوں کا ہے۔ اس احتجاج کے دوران پولیس کی مبینہ فائرنگ میں ایک مسلم نوجوان کی موت ہو گئی لہٰذا سوشل میڈیا یوزرس کا یہ دعویٰ کہ ‘آسام میں بنگلہ دیشی مسلمانوں نے علیٰحدہ ملک کے مطالبہ کرتے ہوئے مظاہرہ کیا’ بالکل غلط ہے۔
دعویٰ:آسام میں الگ ملک کا مطالبہ کر رہے ہیں بنگلہ دیشی مسلمان
دعویٰ کنندگان: @SudhirKumarSuri ، دیگر سوشل میڈیا یوزرس
فیکٹ چیک: فیک اور گمراہ کن