اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے کہا ہےکہ غزہ کی جنگ کے ساتھ مقبوضہ مغربی کنارے میں بھی تشدد غیرمعمولی حد تک بڑھ گیا ہے جہاں 7 اکتوبر کے بعد 500 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
گزشتہ روز مغربی کنارے کے علاقے عقابت جابر میں اسرائیلی فوج نے اپنی چوکی پر پتھراؤ کرنے والے دو نوعمر فلسطینی لڑکوں کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان لڑکوں کو تقریباً 70 میٹر کے فاصلے سے گولیاں ماری گئیں۔
ہائی کمشنر کا کہنا ہے کہ سوموار کو مجموعی طور پر چھ نوجوانوں کی ہلاکتوں کے بعد آٹھ ماہ کے دوران مغربی کنارے میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 505 ہو گئی ہے۔ اسی عرصہ میں فلسطینیوں کے ساتھ جھڑپوں میں 24 اسرائیلیوں کی بھی ہلاکت ہوئی جن میں سے آٹھ کا تعلق سکیورٹی فورسز سے تھا۔
غیر معمولی خونریزی
وولکر ترک نے کہا ہے کہ مغربی کنارے کے لوگوں کو روزانہ کی بنیاد پر خونریزی کا سامنا ہے۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ بلااشتعال تشدد میں اس قدر بڑی تعداد میں انسانی جانیں ضائع ہو گئیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ہلاکتیں، تباہی اور انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر پامالیاں ناقابل قبول ہیں اور انہیں فوری روکا جانا چاہیے۔ اسرائیل انسانی حقوق کے قابل اطلاق اصول و ضوابط کی مطابقت سے جنگی قوانین پر مکمل طور سے عملدرآمد کرے۔ غیرقانونی ہلاکتوں کے الزامات کی مفصل اور غیرجانبدارانہ تحقیقات ہونی چاہئیں اور ان کے ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔
گنجان آبادیوں پر میزائل حملے
وولکر ترک نے کہا ہے کہ گزشتہ سال کے ابتدائی نو مہینوں میں فلسطینیوں کی جتنی ہلاکتیں ہوئیں ان کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملوں کے بعد ان میں مزید تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
رواں سال اب تک مغربی کنارے میں اسرائیلی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں تقریباً 200 فلسطینیوں کی ہلاکت ہو چکی ہیں۔ 2023 اور 2022 میں اسی عرصہ کے دوران یہ تعداد بالترتیب 113 اور 50 رہی۔
اگرچہ مقبوضہ مغربی کنارے میں مسلح جنگ نہیں ہو رہی لیکن اس کے باوجود اسرائیلی سکیورٹی فورسز نے علاقے میں کم از کم 29 عسکری کارروائیاں کیں۔ ان میں پناہ گزینوں کے کیمپوں اور گنجان آباد علاقوں پر ڈرون طیاروں اور میزائلوں سے کیے گئے حملے بھی شامل ہیں۔
طاقت کا غیرمتناسب استعمال
اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) کے مطابق ان کارروائیوں میں 35 بچوں سمیت 164 فلسطینی ہلاک ہو گئے۔ ہلاک ہونے والے بیشتر لوگوں کو جسم کے بالائی حصے زخم آئے تھے اور انہیں طبی امداد سے محروم رکھا گیا۔
دفتر کے مطابق اس سے اسرائیلی فوج کی جانب سے طاقت کے متناسب استعمال اور کشیدگی میں کمی لانے کی کوشش کے بجائے زندگی کے حق کو دانستہ ختم کرنے کا اظہار ہوتا ہے۔ ایسے بیشر واقعات میں جن لوگوں کی ہلاکت ہوئی وہ کسی کی زندگی کے لیے فوری خطرہ نہیں تھے۔