اقوام متحدہ اور اس کے شراکتی اداروں نے غزہ میں مشتبہ فلسطینی جنگجوؤں سے اسرائیلی قید میں روا رکھے جانے والے غیرانسانی سلوک پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اسرائیل کے زیرحراست فلسطینی قیدیوں کی حالت زار پر ایک نئی رپورٹ میں طبی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے ان کے ساتھ ایسے سلوک کی نشاندہی کی گئی ہے جو جنیوا کنونشن کی پامالی اور سنگین جنگی جرم کے مترادف ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ بعض قیدیوں کو اس قدر طویل وقت تک بیڑیوں میں جکڑ کر رکھا گیا کہ ان کے ہاتھ پاؤں ناکارہ ہو جانے کے باعث کاٹنا پڑے۔
یہ رپورٹ غیرسرکاری اداروں کے نیٹ ورک ‘گلوبل پروٹیکشن کلسٹر’ نے اقوام متحدہ کے اداروں اور دیگر بین الاقوامی و غیرسرکاری تنظیموں کے تعاون سے تیار کی ہے۔ اس سے قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی کے بارے میں اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) اور انسانی حقوق کے غیرجانبدار ماہرین کے خدشات کی تصدیق ہوتی ہے۔
اسرائیل کی فوج نے قبل ازیں ان الزامات سے انکار کیا تھا۔
35 یرغمالی ہلاک
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حماس کے حملوں میں اغوا کیے جانے والے 253 افراد میں سے 128 لوگ 19 مئی تک غزہ میں ہی تھے۔
اطلاعات کے مطابق، ان میں 35 سے زیادہ یرغمالی اب زندہ نہیں رہے اور جو زندہ ہیں انہیں ممکنہ طور پر انتہائی برے حالات کا سامنا ہے کیونکہ رہا ہونے والے بعض یرغمالیوں نے بتایا ہے کہ انہیں دوران قید جنسی زیادتی کا نشانہ بھی بنایا گیا۔
صحرائی جیل کے قیدی
رپورٹ میں فلسطینی قیدیوں کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ انہیں ‘سٹرا’ کے ذریعے خوراک دی جاتی ہے۔ غزہ سے تعلق رکھنے والے کم از کم 27 قیدی اسرائیلی فوجی مراکز پر حراست میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں اسرائیل کے نیگیو صحرا میں واقع سدے تیمان نامی اڈہ بھی شامل ہے۔ چار قیدیوں کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ غزہ میں قائم اسرائیلی قید خانوں میں مارپیٹ یا طبی مدد نہ ملنے کے باعث ہلاک ہوئے۔
یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ زخمی قیدیوں کے ہاتھ پاؤں بیڑیوں میں جکڑ کر اور آنکھوں پر پٹی چڑھا کر انہیں چوبیس گھنٹے بیڈ کے ساتھ باندھے رکھا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی پر آواز اٹھانے والے عینی شاہدین نے بھی اس کی تصدیق کی ہے۔
بیڑیاں اور پنجرے
رپورٹ کے مطابق غزہ یا اسرائیل میں قید خانوں یا فوجی اڈوں پر زیرحراست رکھے گئے لوگوں کو دوران قید غیرانسانی حالات کا سامنا رہتا ہے۔ محدود اور پنجروں جیسی جگہوں پر گنجائش سے کہیں زیادہ قیدیوں کو رکھا جاتا ہے۔ ان کی آنکھوں پر پٹی بندھی رہتی ہے، ہاتھ پاؤں بیڑیوں میں جکڑے ہوتے ہیں اور انہیں بیت الخلا تک رسائی بھی نہیں دی جاتی۔ قیدیوں کو مہیا کی جانے والی خوراک اور پانی کی مقدار ان کی بقا کے لیے ناکافی ہوتی ہے۔
بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کے دوران خواتین اور بچوں کو بھی حراست میں لیا جاتا ہے۔ ایسے بہت سے لوگوں کے بارے میں ان کے اہلخانہ کو کسی طرح کی کوئی اطلاعات نہیں ہیں۔ اسرائیل ان قیدیوں یا ان کی جائے قید کے بارے میں معلومات جاری کرنے سے انکار کرتا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 14 برس سے زیادہ عمر کے لڑکوں کو بالغ مردوں جبکہ چھوٹے بچوں کو خواتین اور ان کے خاندان کے بڑے لوگوں کے ساتھ قید میں رکھا جاتا ہے۔
غیر انسانی سزائیں
گزشتہ ماہ کے اختتام تک 865 فلسطینیوں کو ‘غیرقانونی جنگجو’ قرار دے کر قید میں رکھا گیا تھا جبکہ یہ اصطلاح بین الاقوامی قانون میں کہیں موجود نہیں ہے۔ رہائی پانے والے بعض قیدیوں نے بتایا کہ انہیں جبری برہنہ کیے جانے، جنسی ہراسانی، جنسی زیادتی کی دھمکیوں، شدید مار پیٹ، کتوں کے حملوں، برہنہ تلاشی، واٹر بورڈنگ اور خوراک، نیند اور بیت الخلا سے محروم رکھے جانے جیسی سزائیں دی جاتی ہیں۔
رہائی پانے والے قیدیوں اور ان کا علاج کرنے والے طبی عملے کے ارکان کے مطابق ان سے یہ سلوک روا رکھے جانے کا مقصد جبری اعتراف جرم کروانا اور قیدیوں میں سے فلسطینی جنگجوؤں کی نشاندہی کرنا ہوتا ہے۔
اسرائیل کی فوج نے حالیہ دنوں غزہ سے 2,300 افراد کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے، تاہم رپورٹ کے مصنفین کا کہنا ہے کہ ان کی حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔