ایک اخباری تراشہ سوشل میڈیا کے دوش پر سوار ہے، اسے خوب شیئر کیا جا رہا ہے۔ اس میں کانگریس کے انتخابی منشور کے حوالے دعویٰ کیا گیا ہے کہ کانگریس نے مسلمانوں کے لیے کئی وعدے کیے ہیں۔ انہی وعدوں میں لو جہاد کی حمایت کرنا، مسلم پرسنل لاء واپس لانا، گائے کے گوشت کو قانونی قرار دینا اور سپریم کورٹ میں مسلم ججوں کی تقرری کرنا شامل ہیں۔
علاوہ ازیں یہ بھی دعویٰ ہے کہ کانگریس، الیکشن کمیشن، کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل آف انڈیا میں مسلمانوں کی تقرری کرے گی۔ اس اخبار کی کٹنگ میں لکھا ہے کہ میجوریٹیرینزم (اکثریت پرستی) یعنی ہندو دھرم کو ختم کرنے کی پالیسی کی کانگریس نے کھل کر پیروی کی ہے۔
ساتھ ہی یہ بھی دعویٰ ہے کہ بلڈوزر چلانے پر روک لگانے اور عالمی سطح پر غزہ کی حمایت یعنی حماس کی حمایت کرتے ہوئے کانگریس نے خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی باتیں کہی ہیں۔
زیر بحث، اخبار کے تراشے کو شیئر کرتے ہوئے جتیندر کمار سنگھ نامی یوزر نے لکھا،’تمام اعلیٰ آئینی اداروں میں مسلمانوں کی تقرری کی جائے گی، سپریم کورٹ کا CJI مسلم ہوگا۔ 2024 کا یہ الیکشن مینوفیسٹو، غزوہ کا آخری اعلان ہے…یہ سیکولرزم ہے کیا؟‘
فیکٹ چیک:
DFRAC ٹیم نے وائرل اخبار کے تراشے میں کیے گئے دعوؤں کی جانچ-پڑتال کے لیے کانگریس کے انتخابی منشور کو دیکھا۔ کانگریس کے انتخابی منشور میں لو جہاد کی حمایت اور مسلم پرسنل لاء کو واپس لانے کا کوئی ذکر نہیں ہے، بلکہ اس میں لکھا ہے،’کانگریس وعدہ کرتی ہے کہ وہ کھانے اور پہناوے، پیار اور شادی، اور بھارت کے کسی بھی حصے میں سفر اور رہائش کی ذاتی پسند میں دخل نہیں دے گی۔ تمام قانون اور ضابطے جو غیر مناسب طور پر دخل دیتے ہیں، انھیں رد کرے گی‘۔
سپریم کورٹ میں مسلم ججوں کی تقرری کا دعویٰ غلط ہے۔ کانگریس نے اپنے انتخابی منشور میں وعدہ کیا ہے،’شیڈول کاسٹ (ایس سی)، شیڈول قبائل (ایس ٹی)، پچھڑے طبقات اور اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے مرد و خواتین کو زیادہ تعداد میں ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں جج کے طور پر تقرری دی جائے گی‘۔
بایں طور کانگریس نے الیکشن کمیشن، کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل آف انڈیا میں مسلمانوں کی تقرری کا وعدہ نہیں کیا ہے۔ کانگریس نے انتخابی منشور میں لکھا ہے کہ وہ،’بھارت کے الیکشن کمیشن، سینٹرل انفارمیشن کمیشن، ہیومن رائٹس کمیشن، کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل کے دفتر، ایس سی، ایس ٹی، اقلیت اور قومی کمیشن برائے پسماندہ طبقات اور دیگر آئینی اداروں کی خود مختاری کو تقویت پہنچانے کا وعدہ کرتی ہے‘۔
علاوہ ازیں کانگریس نے اپنے انتخابی منشور میں غزہ یا حماس کی حمایت کا کوئی اعلان نہیں کیا ہے۔ کانگریس نے لکھا ہے،’کانگریس بھارت کی خارجہ پالیسی میں تسلسل کی تصدیق کرتی ہے اور اسے قائم رکھے گی۔ تحریک آزادی نے کانگریس کے نقظۂ نظر کو عظیم گہرائی و گیرائی عطا کی تھی اور جواہر لعل نہرو جیسے دوربیں رہنماؤں کے علم کے توسط سے اسے فروغ دیا گیا تھا‘۔
کانگریس نے اکثریت پرستی یعنی ہندو دھرم کو ختم کرنے جیسے کوئی ذکر اپنے انتخابی منشور میں نہیں کیا ہے۔
نتیجہ:
زیر نظر DFRAC کے فیکٹ چیک سے واضح ہے کہ کانگریس کے انتخابی منشور میں مسلمانوں کے لیے وعدوں کا جو دعویٰ سوشل میڈیا یوزرس کی جانب سے کیا گیا ہے، وہ غلط/#Fake ہے۔ کانگریس نے لو جہاد، مسلم پرسنل لاء بورڈ، سپریم کورٹ اور آئینی اداروں میں مسلمانوں کی تقرری کا وعدہ نہیں کیا ہے۔