Home / Misleading-ur / کیا مہاراشٹر میں ہوئی سکھوں کی لنچنگ میں صرف مسلم کمیونٹی ہی ملوث ہے؟ پڑھیں، فیکٹ چیک 

کیا مہاراشٹر میں ہوئی سکھوں کی لنچنگ میں صرف مسلم کمیونٹی ہی ملوث ہے؟ پڑھیں، فیکٹ چیک 

سوشل میڈیا سائٹس پر ایک ویڈیو وائرل ہو رہا ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ہجوم کی جانب سے زدوکوب کیے جانے والے دو نابالغوں کے پاؤں رسی سے بندھے ہیں، ایک کا چہرا لہولہان ہے جبکہ ان کے علاوہ ایک زمین پر گرا ہوا ہے۔ یوزرس اس ویڈیو کو اس دعوے کے ساتھ شیئر کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کا ہجوم سکھ نابالغوں کی لنچنگ کر رہا ہے۔

دیویش تیاگی نامی ایک ویریفائیڈ یوزر نے ٹویٹر پر ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے لکھا،’#پالگھر کے سادھوؤں کی چتاؤں کی اگنی (آگ) شانت (ٹھنڈی) بھی نہیں ہوئی تھی، پھر #مہاراشٹر (پربھنی) کے #جہادی مسلمانوں نے Mob lynching کر #سکھ بچوں کو قتل کر دیا۔ جہادیوں نے 3 #سکھ کے ہاتھ پیر باندھ کر اتنی بے رحمی سے مارا کہ ایک سکھ بچے کی موت ہو گئی اور دو سنگین طور پر زخمی ہیں۔ @VirendraDubey_ کا سوال: کس کا بھروسہ جیتنا ہے؟ اس اورنگ زیب کی اولاد کا، جو اپنے بڑے بھائی #داراشکوہ کا سر قلم کر کے اپنے والد کو تحفے میں دیتا تھا، بالادستی کا سرتاج بنے رہنے کے لیے؟‘

Tweet Archive Link 

ہندو یووا واہنی نامی یوزر نے لکھا،’#سِگلیگڑھ (مہاراشٹر) میں #مسلم ہجوم نے سکھ بچوں کو جم کر مارا پیٹا۔ پگڑیاں اتار کر پیٹا، خیر، یہ ان دونوں قوموں کا باہمی معاملہ ہے، ہم ہندوؤں کا کیا مطلب ان سب سے، شاہین باغ میں خوب چکن کھلایا تھا انہی سکھوں نے مسلموں کو…#سکھ_مسلم_سنگم‘۔ 

Tweet Archive Link

بابا گرپریت سنگھ اُداسی نے ویڈیو ٹویٹ کر پنجابی زبان میں لکھا، جس کا ہندی ترجمہ تقریباً بایں طور ہے- کیسے سگلی گڑھ سکھ بچوں کو مسلم ہجوم نے پیٹا ہے۔کوئی تیری مدد نہیں کرے گا۔ کاش ہندو تجھے پیٹتے، ہمارے بالی یودھا فیس بک کو ریشم میں بدل دیتے۔ لیکن مسلمانوں کا نام سنتے ہی ان یودھاؤں (مجاہدین) کے ٹخنے گیلے ہو جاتے ہیں۔ اب یہ ہیرو آپ کے راز کھولنے کی کوشش کریں گے۔ 

Tweet Archive Link

اسی طرح دیگر سوشل میڈیا یوزرس نے بھی یہی دعویٰ کیا ہے۔

Tweet Archive Link

Tweet Archive Link

Tweet Archive Link

فیکٹ چیک

وائرل ویڈیو اور دعوے کی حقیقت جاننے کے لیے، DFRAC ٹیم نے گوگل پر کچھ کی-ورڈ سرچ کیا۔ اس دوران ہمیں کئی میڈیا رپورٹس ملیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق مہاراشٹر کے پربھنی ضلع میں ہجوم نے سکھ برادری کے تین نابالغ بچوں کو بکری چور سمجھ کر بری طرح زدوکوب کیا۔ ان میں سے ایک کی موت ہو گئی ہے جبکہ دو اسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔

پولیس نے اس معاملے میں کل 09 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے، جن میں سے کلیدی ملزم سابق سرپنچ اکرم پٹیل، سمیت 4 ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

اس کے بعد ہمیں ٹویٹر پر پربھنی پولیس کا بیان ملا۔ ویڈیو پوسٹ کرکے مراٹھی زبان میں لکھا گیا ہے کہ پربھنی ضلع میں شکالکاری برادری کے ایک لڑکے کی ہجومی تشدد کے واقعے کو فرقہ وارانہ رنگ دیا جا رہا ہے۔ پربھنی ضلع پولیس فورس اپیل کرتی ہے کہ براہ کرم سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی جھوٹی افواہوں پر یقین نہ کریں، کسی مذہب یا برادری کے خلاف نفرت پھیلانے والی پوسٹ نہ کریں۔

ویڈیو میں پولیس کی جانب سے بتایا جا رہا ہے کہ جیسے ہی اطلاع ملی پولیس پانچ منٹ کے اندر موقع پر پہنچ گئی۔ پولیس سکھ بچوں کو اپنی گاڑی سے سول اسپتال لے گئی جن میں سے ایک دم توڑ گیا، باقی دو کی حالت خطرے سے باہر ہے۔

اس ویڈیو میں پولیس کہہ رہی ہے کہ یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ایک مخصوص کمیونٹی کے لوگوں نے لنچنگ کی ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ ہم نے اپنی تفتیش میں نو افراد کو ملزم پایا، جن میں سے سات کو گرفتار کر لیا ہے۔ ان گرفتار افراد میں سبھی کمیونٹی کے لوگ ہیں۔ بکری چوری کے شک میں ہوئے اس ماب لنچنگ کے واقعہ میں گاؤں کے سبھی کمیونٹی کے لوگ شامل ہیں۔ 

نتیجہ:

زیرِ نظر DFRAC کے فیکٹ چیک سے واضح ہے کہ وائرل ویڈیو کے تناظر میں صرف مسلم بھیڑ لکھ کر واقعہ کو فرقہ وارانہ رنگ دیا جا رہا ہے، جبکہ پولیس نے بتایا ہے کہ اس واقعہ میں گاؤں کے تمام کمیونٹی کے لوگ ملوث ہیں، جن میں سات افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس نے اپنے بیان میں عوام سے کہا ہے کہ وہ ایسی افواہوں سے ہوشیار رہیں، لہٰذا یہ واضح ہے کہ وائرل ویڈیو کے تناظر میں سوشل میڈیا یوزرس کا دعویٰ غلط ہے۔

Tagged: