
© UNICEF/Eyad El Baba غزہ کا ایک بچہ اپنے گھر کے ملبے پر بیٹھا ہے۔
اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اسرائیل غزہ میں بفر زون کو وسعت دینے کے لیے فلسطینی شہریوں کو علاقے سے مستقل طور پر بیدخل کر سکتا ہے۔
ادارے کی ترجمان روینہ شمداسانی نے کہا ہے کہ مخصوص علاقوں سے لوگوں کو انخلا کے لیے دیے جانے والے احکامات بعض شرائط کی پاسداری کرنے کی صورت میں قانوناً جائز بھی ہو سکتے ہیں، لیکن جس طرح اور جس قدر بڑی تعداد میں لوگوں کو نقل مکانی کا حکم دیا جا رہا ہے اس سے خدشات جنم لیتے ہیں۔ ان احکامات کا مقصد بفر زون قائم کرنے کے لیے ان علاقوں کو شہری آبادی سے دائمی طور پر خالی کرانا بھی ہو سکتا ہے۔
انہوں ںے واضح کیا ہے کہ مقبوضہ علاقوں سے شہریوں کو مستقل طور پر بیدخل کرنا ان کی جبری منتقلی کے مترادف ہے جو چوتھے جنیوا کنونشن کی سنگین خلاف ورزی اور انسانیت کے خلاف جرم ہے۔
شہری تنصیبات پر بڑھتے حملے
جنگ بندی ختم ہونے کے بعد غزہ میں لڑائی چھٹے ہفتے میں داخل ہو گئی ہے جہاں امداد کی فراہمی بند ہونے کے باعث 21 لاکھ سے زیادہ لوگوں کی خوراک، پینے کے پانی اور بنیادی خدمات تک رسائی نہیں رہی۔
حالیہ ہفتوں میں اسرائیل نے شہری تنصیبات بشمول رہائشی عمارتوں اور پناہ گزینوں کے کیمپوں پر حملے تیز کر دیے ہیں جن کے نتیجے میں لوگوں کی بڑی تعداد ہلاک یا لاپتہ ہو رہی ہے۔
‘او ایچ سی ایچ آر’ کے مطابق، 18 مارچ اور 9 اپریل کے درمیان اسرائیل کی فوج نے 36 مختلف حملوں میں 224 مرتبہ لوگوں کے گھروں اور خیموں کو نشانہ بنایا۔
ترجمان نے کہا ہے کہ غزہ میں صحافیوں پر حملوں میں بھی اضافہ ہو گیا ہے جہاں 7 اکتوبر 2023 کے بعد کم از کم 209 صحافی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ اسرائیل عالمی اطلاعاتی اداروں کو غزہ میں داخلے کی اجازت دینے سے انکاری ہے۔
ممکنہ جنگی جرائم
ترجمان نے کہا ہے کہ متحارب فریقین پر جنگی قوانین بالخصوص اہداف میں تمیز کرنے کے اصول کی پابندی کرنا لازم ہے۔ نہتے اور پرامن شہریوں کو حملوں کا ہدف نہیں بنانا چاہیے اور عسکری کارروائی میں تناسب اور احتیاط کے اصولوں کو مدنظر رکھا جانا ضروری ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ شہریوں پر حملے جنگی جرم کے مترادف ہیں اور ان سے فلسطینیوں کو درپیش حالات میں مزید بگاڑ پیدا ہو گا جو پہلے ہی ہولناک صورتحال کا شکار ہیں۔
‘او ایچ سی ایچ آر’ نے متواتر خبردار کیا ہے کہ شہری آبادی کو اجتماعی سزا دینا اور اس پر جنگی مقاصد کے لیے بھوک مسلط کرنا بین الاقوامی قانون کے تحت جرم ہے۔

غزہ سے باہر امداد کے ڈھیر
غزہ میں ادویات کا ذخیرہ تیزی سے ختم ہو رہا ہے جبکہ بڑی تعداد میں امدادی طبی سازوسامان غزہ کی سرحدوں سے باہر پڑا ہے۔ مغربی کنارے اور غزہ کے لیے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے نمائندے ڈاکٹر رک پیپرکورن نے بتایا ہے کہ بڑی تعداد میں امدادی سامان دبئی میں بھی موجود ہے جسے کسی بھی وقت غزہ میں بھیجا جا سکتا ہے لیکن سرحدی راستے بند ہونے کے باعث غزہ کے لوگ اس مدد سے محروم ہیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ ہنگامی علاج کے متقاضی مریضوں اور زخمیوں کی غزہ سے بیرون ملک منتقلی سست روی کا شکار ہے۔ علاوہ ازیں، ہسپتالوں میں بین الاقوامی ہنگامی طبی ٹیموں کی تعیناتی میں بھی کمی آئی ہے جس کے نتیجے میں انہیں مریضوں کے بوجھ سے نمٹنے میں مشکلات درپیش ہیں۔
انہوں نے تمام ممکنہ راستوں سے مریضوں کو ہنگامی علاج کے لیے بیرون ملک بھیجنے کے فوری اقدامات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس مقصد کے لیے خاص طور پر مغربی کنارے اور یروشلم کی جانب راستہ کھولنا بہت ضروری ہے۔