اقوام متحدہ کے ادارے اور شراکت دار شام میں امدادی کارروائیوں کو وسعت دے رہے ہیں جہاں طبی سازوسامان اور ایندھن کی قلت ہے جبکہ تشدد اور جنگ زدہ علاقوں میں بکھرے گولہ بارود کے باعث انسانی جانوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے رواں سال ملک میں اپنا پہلا امدادی مشن بھیجا ہے جو ترکیہ سے شام کے شہر حلب میں پہنچا جہاں اس کے ارکان طبی عملے کو زخمیوں کے علاج کی تربیت دیں گے۔
اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن ڈوجیرک نے بتایا ہے کہ آنے والے دنوں میں سرحد پار سے ایسے مزید مشن بھی شام میں بھیجے جانا ہیں۔ حلب کے طبی مراکز میں ایندھن، بجلی اور پانی کی قلت ہے۔ منبج کے نیشنل ہسپتال میں کئی روز سے جنریٹر کے ذریعے انکیوبیٹر اور انتہائی نگہداشت کے یونٹ چلائے جا رہے ہیں۔
‘ڈبلیو ایف پی’ کا امدادی اقدام
ملک بھر کے دیگر ہسپتالوں کو بھی ادویات سمیت طبی سازوسامان کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ گزشتہ سال اقوام متحدہ نے شمال مغربی شام میں ہر ماہ اوسطاً 30 طبی مشن بھیجے تھے جنہوں نے علاقے میں ضروریات کا جائزہ لیا، لوگوں سے بات چیت کی اور انسانی مدد مہیا کی۔
ترجمان نے بتایا کہ عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) شامی عرب ہلال احمر کے تعاون سے ضرورت مند لوگوں میں خوراک تقسیم کر رہا ہے۔ اس اقدام کے تحت ہر ماہ 3,600 خاندانوں کو غذائی مدد فراہم کی جانا ہے۔
ترجمان کے مطابق، اقوام متحدہ کے امدادی شراکت دار موسم سرما کی آمد پر ضرورت مند لوگوں کو گرم کپڑے اور کمبل بھی فراہم کر رہے ہیں۔ اواخر نومبر کے بعد ملک بھر میں 620,000 لوگ بے گھر ہوئے ہیں جن کی بڑی تعداد نے حلب، حمص، ساحلی علاقوں اور شمال مشرقی شام سے نقل مکانی کی۔
اَن پھٹے گولہ بارود سے ہلاکتیں
امدادی شراکت داروں کے مطابق 2 سے 5 جنوری تک شمال مغربی شام میں اَن پھٹے گولہ بارود کی زد میں آ کر 13 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے۔ گزشتہ سال نومبر کے مقابلے میں دسمبر کے دوران بارودی سرنگوں کے دھماکوں میں 300 فیصد اضافہ ہوا۔
شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی رابطہ کار جیئر پیڈرسن ملک کے اہم سیاسی کرداروں سے رابطے کر رہے ہیں اور بدھ کو ویڈیو لنک کے ذریعے سلامتی کونسل کو ملکی صورتحال پر بریفنگ دیں گے۔ ان کی نائب نجات رشدی بھی شام کے عبوری حکام سے ملاقاتوں کے لیے دارالحکومت دمشق کا دورہ کر رہی ہیں۔