اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے کہا ہے کہ غزہ میں انسانی حقوق تباہ کن انداز میں پامال کئے جا رہے ہیں جہاں اسرائیل کے جنگی طور طریقوں کے باعث ہزاروں افراد کی ہلاکت ہو چکی ہے جبکہ ہسپتال، طبی عملہ اور مریض بھی مہلک حملوں سے محفوظ نہیں ہیں۔
ہائی کمشنر نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو غزہ کے حالات پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ ہسپتالوں پر پہلے فضائی بمباری کی جاتی ہے جس کے بعد وہاں زمینی حملہ ہوتا ہے۔ اس دوران بعض مریضوں اور طبی عملے کے ارکان کو گرفتار کر کے بقیہ لوگوں کو ہسپتال چھوڑنے کے لیے کہا جاتا ہے اور اس طرح طبی مراکز غیرفعال ہو جاتے ہیں۔
کبھی کبھار حماس اور دیگر مسلح فلسطینی گروہ بھی اسرائیل پر اندھا دھند راکٹ داغتے ہیں جن سے شہریوں اور طبی مراکز سمیت شہری تنصیبات کو خطرہ لاحق ہوتا ہے جو کہ ناقابل قبول ہے۔ دوران جنگ ہسپتالوں کو تحفظ دینا لازم ہے اور تمام متحارب فریقین کو ہر طرح کے حالات میں طبی مراکز پر حملوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔
انہوں نے سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ شہریوں کے تحفظ کو ترجیح بناتے ہوئے اس صورتحال پر ضروری اقدامات کرے۔
صحت و زندگی کے حق کی سلبی
وولکر ترک نے کونسل کے ارکان کو بتایا کہ غزہ بھر میں ہسپتالوں کی تباہی سے فلسطینی شہری طبی نگہداشت تک رسائی کے اپنے بنیادی حق سے محروم ہو رہے ہیں۔ علاوہ ازیں، ہسپتالوں اور دیگر طبی مراکز پر ہزاروں لوگوں نے پناہ بھی لے رکھی ہے جو تواتر سے اسرائیل کی بمباری اور زمینی حملوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔
گزشتہ جمعے کو شمالی غزہ کے کمال عدوان ہسپتال کی تباہی سے اسرائیل کے ایسے منظم حملوں کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ یہ علاقے میں آخری فعال ہسپتال تھا جہاں اب طبی سہولیات کی فراہمی ممکن نہیں رہی۔
اس حملے کے دوران ہسپتال کے جنرل ڈائریکٹر سمیت عملے کے بعض ارکان اور مریضوں کو گرفتار اور بقیہ کو وہاں سے بے دخل کر دیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق اس دوران مریضوں اور عملے کو تشدد اور بدسلوکی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
انہوں نے کونسل کو بتایا کہ غزہ میں ہسپتالوں کے اندر اور ان کے قریب اسرائیل کی عسکری کارروائیوں سے طبی خدمات کی فراہمی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ بعض شہریوں کے لیے یہ حالات خاص طور پر تباہ کن ہیں۔ ایک اطلاع کے مطابق، گزشتہ چند روز میں چھ بچے ہائپو تھرمیا (جسمانی حرارت میں غیرمعمولی کمی) کے کے باعث ہلاک ہو گئے کیونکہ ان کے لیے مناسب علاج میسر نہیں تھا۔
بیرون ملک علاج کا مطالبہ
مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے لیے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے نمائندے ڈاکٹر رک پیپرکورن نے بھی سلامتی کونسل کو بریفنگ دی۔ اس موقع پر انہوں نے بتایا کہ غزہ میں 12 ہزار سے زیادہ مریضوں اور زخمیوں کو بیرون ملک علاج کی فوری ضرورت ہے۔ تاہم کسی مریض کو غزہ سے باہر بھیجنے کی اجازت لینے کا عمل اس قدر مشکل اور طویل ہے کہ ان لوگوں کی زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ غزہ میں ہسپتال میدان جنگ کا منظر پیش کر رہے ہیں جبکہ علاقے کی سات فیصد آبادی ہلاک اور زخمی ہو چکی ہے۔ اکتوبر 2023 کے بعد طبی مراکز پر 654 حملے ہو چکے ہیں۔ تاہم، انتہائی مشکل حالات کے باوجود طبی کارکن، ڈبلیو ایچ او اور اس کے شراکت دار لوگوں کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے کی ہرممکن کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کونسل پر زور دیا ہے کہ غزہ میں انسانی امداد بشمول طبی مدد کی فراہمی میں اضافے، شدید زخمی اور بیمار لوگوں کو علاج کے لیے علاقے سے باہر منتقل کرنے، بین الاقوامی قانون پر عملدرآمد یقینی بنانے اور جنگ بندی کے لیے موثر اقدامات کئے جائیں۔
طبی لباس حملوں کا ہدف
غیرسرکاری ادارے ‘فلسطینیوں کے لیے طبی امداد’ (ایم اے پی) کی سربراہ ڈاکٹر تانیہ ہاج حسن نے کونسل کو بتایا کہ غزہ میں طبی عملے کے لیے اپنا مخصوص لباس پہننا گویا حملے اور موت کو دعوت دینا ہے۔ 15 ماہ سے جاری جنگ میں غزہ کے اندر طبی عملے کے تقریباً ایک ہزار ارکان ہلاک ہو چکے ہیں۔
تاہم، زیرمحاصرہ رہنے کے باوجود غزہ کے معالجین اور ان کے معاونین نے لوگوں کو صحت کی بہترین خدمات فراہم کرنے کے لیے غیرمعمولی حد تک قابل ستائش کام کیا اور اپنے طبی حلف کی بطریق احسن پاسداری کی ہے۔
انہوں نے بتایا، طبی عملے کا کہنا ہے کہ انہیں محض اپنے کام کی بنا پر حملوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ تاہم، ہسپتال اور وہاں کام کرنے والے لوگ زندگی کی علامت ہیں جو لوگوں کو صحت مند اور زندہ رکھنے کا کام کرتے رہیں گے۔