اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) کے مطابق دنیا بھر میں جاری مسلح تنازعات بچوں کے لیے تباہ کن ثابت ہو رہے ہیں اور امکان ہے کہ سال 2024 میں ان کے اثرات ریکارڈ سطح تک پہنچے ہوئے ہونگے۔
یونیسف کی طرف سے جاری کردہ ایک تازہ رپورٹ میں کہا گہا ہے کہ بچوں کے حقوق کی ریکارڈ تعداد میں خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ وہ تشدد کا شکار ہو رہے ہیں، سکول کی تعلیم اور زندگی بچانے والی ویکسین سے محروم ہیں اور غذائی قلت کا شکار ہیں جبکہ اس صورتحال سے دوچار بچوں کی تعداد میں مزید اضافہ متوقع ہے۔
“This must not be the new normal.” – @unicefchief
— UNICEF (@UNICEF) December 28, 2024
In 2025, we must do more to turn the tide and save and improve the lives of children.
Full statement: https://t.co/InCsNiXwJi pic.twitter.com/keO0W9hGqU
میانمار سے لے کر فلسطین اور ہیٹی سے لے کر سوڈان تک، دنیا دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے زیادہ پرتشدد تنازعات کا سامنا کر رہی ہے۔ دنیا میں بچوں کی آبادی کا تقریباً 19 فیصد یعنی 47 کروڑ 30 لاکھ بچے اس وقت پرتشدد تنازعات میں گھرے علاقوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ ان بچوں میں سے 4.72 کروڑ کو جبراً بے گھری کا بھی سامنا ہے۔
غزہ میں ہزاروں بچے ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے ہیں جبکہ یوکرین میں 2024 کے پہلے 9 مہینوں کے دوران بچوں کی ہلاکتوں کی تعداد پہلے ہی 2023 کی کل تعداد سے تجاوز کر چکی ہے۔ پرتشدد تنازعات کی زد میں آنے والے علاقوں میں خواتین اور لڑکیوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔
ہیٹی میں اس سال اب تک بچوں کے خلاف جنسی تشدد کے واقعات میں ایک ہزار فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح پرتشدد تنازعات سے متاثرہ علاقوں میں معذور بچوں کے حقوق کی پامالی کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
تعلیم میں خلل اورغذائی قلت
ایک اندازے کے مطابق پرتشدد تنازعات کا سامنا کرنے والے ممالک میں 5 کروڑ 20 لاکھ بچے سکول جانے سے قاصر ہیں۔
غزہ اور سوڈان میں ایک سال سے زیادہ عرصہ سے بچوں کی تعلیم متاثر ہوئی ہے جبکہ یوکرین، کانگو اور شام میں سکولوں کی عمارتوں کو یا تو بھاری نقصان پہنچا ہے یا انہیں دوسرے مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، جس سے ان علاقوں میں بچوں کی تعلیم بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
پرتشدد تنازعات کے علاقوں میں بچوں میں غذائی قلت کے معاملات تشویشناک حد تک پہنچ چکے ہیں۔ مسلح تشدد اور تنازعات کی وجہ سے بہت سے علاقے خوراک کے بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔ بگڑے ہوئے حالات نے خوراک کی فراہمی کا نظام درہم برہم کر دیا ہے، لوگوں کو بے گھر کر دیا ہے اور انسانی امدادی کارروائیوں میں رکاوٹیں کھڑی ہیں۔
ذہنی و جسمانی صحت کے مسائل
پرتشدد تنازعات نے بچوں کے لیے صحت کی دیکھ بھال کی خدمات تک رسائی کو بھی متاثر کیا ہے۔ حفاظتی ٹیکوں سے محروم بچوں میں تقریباً 40 فیصد ایسے ممالک میں رہتے ہیں جو مکمل یا جزوی طور پر مسلح تنازعات کا شکار ہیں۔
ان بچوں کو خسرہ، پولیو اور دیگر بیماریوں کا خطرہ لاحق ہے کیونکہ ان کے پاس مناسب تحفظ، غذائیت اور صحت کی خدمات کی کمی ہے۔
مسلح تصادم کے سائے میں رہنے سے بچوں کی ذہنی صحت پر بھی گہرا اثر پڑا ہے۔ تشدد، موت، تباہی، خاندان کے افراد کے کھو جانے کے تجربات کی وجہ سے بچے ذہنی تناؤ کا شکار ہوتے ہیں۔ انہیں ڈراؤنے خواب آتے ہیں اور وہ سونے میں دشواری محسوس کرتے ہیں۔
اس صورتحال میں ان کے رویے میں تبدیلی آتی ہے اور وہ جارحیت، اداسی، خوف، خاموشی اور دیگر مسائل کا شکار رہتے ہیں۔