شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے جیئر پیڈرسن نے کہا ہے کہ عالمی برادری کو ملک کے لوگوں کی بات سننا اور ان کے لیے انتھک کام کرنا ہو گا تاکہ دوبارہ ایسے جرائم نہ ہو سکیں جن کا انہیں اسد حکومت میں سامنا رہا۔
ان کا کہنا ہے کہ شام میں سابق حکومت کے قید خانوں اور ان میں رکھے گئے لوگوں کے حوالے سے ہولناک اطلاعات سامنے آ رہی ہیں۔ اس حوالے سے اب تک جو کچھ دیکھا اور سنا گیا ہے حقائق اس سے کہیں زیادہ خوفناک ہو سکتے ہیں۔
🔴OPCW urges Syria to fulfil its Chemical Weapons Convention Obligations
— OPCW (@OPCW) December 12, 2024
Today, the OPCW held an extraordinary meeting to address Syria's incomplete declaration of its chemical weapons programme. After 11 years, significant gaps in Syria's declaration remain.
Director-General…
جیئر پیڈرسن ان دنوں شام کے سیاسی مستقبل کے تمام حصہ داروں سے رابطے میں ہیں تاکہ ملکی عوام کے زیرقیادت پرامن انتقال اقتدار کو ممکن بنایا جائے۔
فیصلہ کن اور ہمدردانہ اقدام کا وقت
خصوصی نمائندے کا کہنا ہے کہ شام میں قید خانوں اور قیدیوں کے جو حالات سامنے آئے ہیں وہ ان لوگوں، ان کے خاندانوں اور عزیزوں کو پہنچنے والی ناقابل بیان تکالیف کی مستند گواہی ہیں۔ اب فیصلہ کن اور ہمدردانہ اقدام کا وقت آ گیا ہے۔ عالمی برادری اور تمام متعلقہ فریقین کو لاپتہ اور قید افراد کے خاندانوں کو مدد مہیا کرنا ہو گی۔ اس میں انہیں طبی امداد، نفسیاتی و قانونی مدد اور محفوظ پناہ کی فراہمی شامل ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ شام میں حراستی مراکز میں ہونے والے تمام جرائم کی شہادتیں محفوظ کی جانی چاہئیں تاکہ اپنے پیاروں کی تلاش میں سرگرداں خاندانوں کو انصاف اور احتساب کے لیے مدد مل سکے۔ لاپتہ افراد کی بازیابی کو ترجیح بنانا ہو گا تاکہ لوگوں کو علم ہو سکے کہ ان کے عزیز کہاں ہیں اور آیا وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں۔ یہ ناصرف ان لوگوں کا حق بلکہ مستقبل میں جرائم کی روک تھام کے لیے لازمی شرط بھی ہے۔
مشترکہ کوششوں کی ضرورت
جیئر پیڈرسن نے قید خانوں سے آزادی پانے والوں کو انسانی امداد کی فراہمی کے لیے بھی کہا ہے۔ ان کے علاوہ بے شمار لوگ ملک کے سرحدی علاقوں میں متعدد مسلح گروہوں کی قید میں ہیں جن کی رہائی بھی اتنی ہی ضروری ہے۔
انہوں نے تمام فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ اس معاملے میں لاپتہ افراد کے بارے میں غیرجانبدرانہ اور آزادانہ طریقہ کار (آئی آئی آئی ایم پی) اور شام کے بارے میں آزاد تحقیقاتی کمیشن (سی او آئی) سمیت دیگر متعلقہ قومی و بین الاقوامی اداروں سے تعاون کریں۔
کیمیائی ہتھیاروں کا خاتمہ
کیمیائی ہتھیاروں کےامتناع کا ادارہ (او پی سی ڈبلیو) اقوام متحدہ کے تعاون سے ماہرین کی ایک ٹیم شام میں بھیج رہا ہے جو حالات سازگار ہوتے ہی ملک میں پہنچ جائے گی۔
ادارے کے ڈائریکٹر جنرل فرنانڈو ایریاس نے کہا ہے کہ بشارالاسد کی حکومت میں شام کبھی کیمیائی ہتھیاروں کے اپنے مکمل پروگرام کو سامنے نہیں لایا جبکہ سابقہ حکومت نے طویل خانہ جنگی کے دوران متعدد مواقع پر ایسے ہتھیار استعمال بھی کیے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ ادارہ گزشتہ دنوں سے شام کی صورت حال کا بغور جائزہ لے رہا ہے۔ ملک میں سیاسی حالات اور سلامتی کی صورتحال مخدوش ہے۔ ادارے کا مقصد شام کے کیمیائی ہتھیاروں کے پروگرام کا مکمل خاتمہ کرنا اور ملک کی سابق حکومت اور ان ہتھیاروں کو استعمال کرنے والے دیگر کرداروں کا عالمی سطح پر محاسبہ ممکن بنانا ہے۔
تعاون کی ضرورت
یہ کام 11 سال پہلے شروع ہوا تھا جب شام پر پہلی مرتبہ کیمیائی ہتھیاروں کے امتناع کے کنونشن (سی ڈبلیو سی) کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا۔ ‘او پی سی ڈبلیو’ کا ٹیکنیکل سیکرٹریٹ اپنی ڈیکلریشن اسیسمنٹ ٹیم (ڈی اے ٹی) کے ذریعے شام کی جانب سے اپنے ہتھیاروں کے بارے میں دی جانے والی معلومات کے ضمن میں تضادات اور بے ربطگی کا جائزہ لیتا چلا آیا ہے جبکہ سلامتی کونسل کو اس بارے میں باقاعدگی سے آگاہ رکھا جاتا ہے۔
فرنانڈو ایریاس نے کہا ہے کہ شام کو اب اس معاملے میں مکمل تعاون کرنا ہو گا اور کیمیائی ہتھیاروں کے امتناع کے کنونشن کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے باقی ماندہ پروگرام کا خاتمہ یقینی بنانا ہو گا۔