50 روز سے زیرمحاصرہ شمالی غزہ اسرائیل کی بمباری سے ملیامیٹ ہو چکا ہے۔ علاقے میں انسانی امداد کی رسائی ختم ہو گئی ہے اور پناہ کی تلاش میں بھٹکتے لوگوں کو ہر جگہ موت اور تباہی کا سامنا ہے۔
فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (انروا) کی ہنگامی رابطہ کار لوسی ویٹریج نے یو این نیوز کو بتایا ہے کہ زیرمحاصرہ شمالی غزہ سے انخلا کرنے والے لوگ صرف تن کے کپڑوں میں اپنے گھر اور پناہ گاہیں چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ امدادی ادارے تقریباً 50 روز سے علاقے میں مدد پہنچانے کی کوششیں کرتے آئے ہیں لیکن ضرورت مند لوگوں تک رسائی انتہائی محدود ہے۔
At our school-turned-shelter in Gaza City this morning, families queue in the rain for healthcare at an @UNRWA medical point.
— UNRWA (@UNRWA) November 24, 2024
Despite the school being damaged from ongoing military operations, many people who have recently fled besieged north #Gaza are forced to shelter here… pic.twitter.com/jutxRxKrVa
جبالیہ سے نقل مکانی کرنے والوں نے بتایا ہے کہ علاقے میں صرف موت کا راج ہے۔ لوگوں کے پاس نہ تو خوراک ہے اور نہ ہی انہیں پینے کا پانی دستیاب ہے۔
پناہ گاہوں پر حملے
نقل مکانی کرنے والے بہت سے لوگوں نے تحفظ کی تلاش میں ‘انروا’ کے سکولوں کا رخ کیا ہے لیکن انہیں وہاں بھی بمباری سے تحفظ نہیں ملا۔ شمالی غزہ میں حالیہ دنوں اقوام متحدہ کی ان پناہ گاہوں پر چھ مرتبہ حملے ہو چکے ہیں۔
بہت سے لوگوں نے بتایا ہے کہ جب محاصرہ شروع ہوا تو وہ جان بچانے کے لیے غزہ شہر کی جانب گئے لیکن موت اور تباہی وہاں بھی ان کا تعاقب کرتی رہی ہے۔
لوسی ویٹریج کا کہنا ہے کہ شمالی غزہ میں کوئی عمارت سلامت نہیں رہی۔ اس وقت غزہ شہر میں تقریباً تین لاکھ لوگ موجود ہیں جو ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ چونکہ انہیں کہیں کوئی پناہ میسر نہیں ہے اسی لیے وہ اقوام متحدہ کے مراکز کا رخ کرتے ہیں۔
سردی سے تحفظ کی جدوجہد
موسم سرما کی آمد پر لوگوں کو ایسی جگہوں کی تلاش ہے جہاں وہ سردی سے محفوظ رہ سکیں۔ انہیں ترپالوں، خیموں اور پناہ گاہوں کی ضرورت ہے۔ ان کے پاس کمبل یا گدے نہیں ہیں اور وہ کھلے آسمان تلے پڑے ہیں۔
تقریباً دو ماہ سے شمالی غزہ میں رسائی نہیں دی جا رہی یا اس میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں۔ لوگ بتاتے ہیں کہ وہ زندہ رہنے کے لیے جوہڑوں کا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ جبالیہ میں ‘انروا’ کے آٹھ کنوؤں کو بمباری سے نقصان پہنچا ہے یا وہ تباہ ہو چکے ہیں۔ ہسپتالوں کو کئی مرتبہ نشانہ بنایا گیا ہے اور ‘انروا’کے تمام طبی مراکز ادویات سے خالی ہو چکے ہیں۔
امدادی کارکنوں کی ہلاکتیں
ان کا کہنا ہے کہ اس جنگ میں اب تک ‘انروا’ کے 247 امدادی کارکنوں کی ہلاکت ہو چکی ہے۔ ادارے کے لیے کام کرنے والے لوگ اور ان کے خاندان متواتر زخمی یا ہلاک ہو رہے ہیں۔ چند ہفتوں سے یہ کارکن تحفظ کی خاطر غزہ کے مختلف علاقوں میں بکھر گئے ہیں۔ بعض اوقات ان کا ایک دوسرے سے رابطہ کئی روز تک منقطع رہتا ہے اور کسی کو دوسرے کی کوئی خبر نہیں ہوتی۔
بعض اوقات کوئی امدادی کارکن ہلاک ہو جاتا ہے تو اس کے ساتھیوں کو کئی دن اس کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملتی اور کبھی لاپتہ لوگ دوبارہ آن لائن آ جاتے ہیں۔ یہ انتہائی مایوس کن صورتحال ہے۔
لوسی ویٹریج نے بتایا کہ اقوام متحدہ کے امدادی قافلوں کو کئی مرتبہ حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ وہ جولائی میں خود بھی ایسے ہی ایک حملے کا سامنا کر چکی ہیں۔ ان حالات میں امدادی اداروں کے لیے کام کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔