عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے شمالی غزہ کے کمال عدوان ہسپتال پر حملے روکنے کا مطالبہ کیا ہے جہاں اسرائیل کی کارروائیوں میں دو روز کے دوران ہسپتال کے ڈائریکٹر اور طبی عملے کے ارکان سمیت مزید 14 افراد زخمی ہو گئے ہیں۔
‘ڈبلیو ایچ او’ کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے ہسپتال پر حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اس میں موجود 13 بچوں سمیت 85 افراد اور انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں زیرعلاج 8 مریضوں کو انخلا کے لیے محفوظ راستہ فراہم کرنے کی اپیل کی ہے۔
Continued attacks on Kamal Adwan Hospital in northern #Gaza have caused an additional 14 injuries in the past 48 hours, including the hospital director and the very few remaining doctors and nurses — this is deplorable.
— Tedros Adhanom Ghebreyesus (@DrTedros) November 25, 2024
There are still 65 adult patients with injuries, 13 child…
ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج ہسپتال میں امدادی مشن کو رسائی دے تاکہ وہاں باقی ماندہ مریضوں کی مدد کے لیے ضروری سازوسامان بھیجا جا سکے۔ انہوں نے علاقے میں فوری جنگ بندی کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔
غزہ شہر میں ہفتے کو اسرائیلی فوج کی جانب سے انخلا کا حکم دیے جانے کے بعد درجنوں خاندان بے گھر ہو گئے ہیں۔ قبل ازیں زیرمحاصرہ شمالی غزہ میں لوگوں کو نقل مکانی کے احکامات دیے جانے کے بعد ہزاروں افراد کو اپنے ٹھکانے چھوڑ کر محفوظ علاقوں کی جانب نکلنا پڑا ہے۔
شدید بارشیں اور سیلاب
ہنگامی امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) نے بتایا ہے کہ غزہ میں شدید بارشوں کے بعد متعدد علاقوں میں سیلابی کیفیت پیدا ہو گئی ہے جہاں پناہ گزینوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ ان میں جنوبی علاقہ خان یونس اور شمال میں غزہ شہر بھی شامل ہیں۔ بارش کے باعث لوگوں کے خیموں اور سامان کو نقصان پہنچا ہے۔
‘اوچا’ اور اقوام متحدہ کے شراکت دار بارشوں کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے متعدد علاقوں کا دورہ کر رہے ہیں۔ امدادی شراکت داروں کا اندازہ ہے کہ غزہ بھر میں 16 لاکھ لوگ عارضی پناہ گاہوں میں مقیم ہیں۔ بارشوں کے موسم میں حفاظتی اقدامات کی تیاریاں امدادی سامان کی شدید قلت کے باعث محدود ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کی تکالیف میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ادارے کا کہنا ہے کہ خان یونس، دیرالبلح اور رفح میں سیلاب کی زد میں آنے والے علاقوں میں 450,000 سے زیادہ لوگ مقیم ہیں۔ان تمام جگہوں پر مقامی امدادی گروہ بارشوں اور سیلاب سے بچاؤ کی تیاریوں میں مدد دے رہے ہیں جن میں 20 مقامات پر ریت کی بوریاں رکھنے کا کام بھی شامل ہے۔
اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن ڈوجیرک نے بتایا ہے کہ جن جگہوں کا جائزہ لیا جا چکا ہے ان میں 90 فیصد کے لیے حفاظتی منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی اور سیلاب آنے کی صورت میں یہ مقامات قابل رہائش نہیں رہیں گے۔