اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ اسرائیل نے غزہ پر 25 ہزار ٹن گولہ بارود برسایا ہے جو دو جوہری بموں کے برابر ہے اور اس کے جنگی ہتھکنڈے فلسطینیوں کی نسل کشی کے مترادف ہیں۔
فلسطینیوں اور مقبوضہ علاقوں کی عرب آبادی کے حقوق پر اسرائیلی کارروائیوں کے اثرات کا جائزہ لینے والے جنرل اسمبلی کے خصوصی پینل نے غزہ میں اسرائیل کے جنگی طریقہ کار کی سخت مذمت کی ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ اکتوبر 2023 سے جولائی 2024 تک غزہ میں پانی کی فراہمی، نکاسی آب کے نظام اور زراعت کو تباہ کر دیا گیا۔ شدید بمباری سے غزہ کی فضا زہریلی ہو چکی ہے اور اس تباہی کے اثرات غزہ کے لوگوں کی آئندہ نسلوں تک برقرار رہیں گے۔
#AccessDenied continues:
— OCHA OPT (Palestine) (@ochaopt) November 13, 2024
Yesterday & today, Israeli authorities blocked 6 attempts to deliver life-saving assistance to those besieged in North #Gaza.
This month, every UN attempt to access that area with supplies was denied or impeded.
We've submitted 4 requests for tomorrow. pic.twitter.com/8fyjqea4bN
پینل کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی فوج نے اپنے اہداف کو مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کے ذریعے نشانہ بنایا جس میں انسانی نگرانی بہت کم تھی۔ اس نے رہائشی علاقوں پر بھاری بم برسائے اور ان حملوں میں نہ تو شہریوں اور جنگجوؤں میں کوئی تمیز کی گئی اور نہ ہی عام لوگوں کی ہلاکتوں کو روکنے کے لیے کوئی اقدامات کیے گئے۔
یہ پینل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1968 میں قائم کیا تھا جس کا مقصد مشرقی یروشلم سمیت مقبوضہ مغربی کنارے، غزہ کی پٹی اور اسرائیل کے زیرقبضہ شام کے علاقے گولان میں انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لینا ہے۔ پینل اپنی رپورٹ 18 نومبر کو جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پیش کرے گا۔
بھوک: اسرائیل کا جنگی ہتھکنڈہ
جنرل اسمبلی کے پینل نے بتایا ہے کہ غزہ کے محاصرے، انسانی امداد کی فراہمی میں رکاوٹوں، شہریوں اور امدادی کارکنوں پر حملوں جیسے ہتھکنڈوں سے اسرائیل علاقے میں دانستہ طور پر موت، بھوک اور تکالیف مسلط کر رہا ہے۔ ایسے اقدامات کو روکنے کے لیے اقوام متحدہ کی اپیلوں اور عالمی عدالت انصاف کے احکامات کو بھی نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ یہ ہتھکنڈے فلسطینی آبادی کو اجتماعی سزا دینے کے مترادف ہیں۔
پینل کے مطابق، غزہ میں اسرائیل کی فوج کے اہلکار بچوں اور خواتین سمیت فلسطینیوں سے ظالمانہ، غیرانسانی اور توہین آمیز سلوک کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی ایسی تصاویر جاری کی گئی ہیں جن میں یہ اہلکار فلسطینی خواتین کے ساتھ توہین آمیز سلوک کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
پینل کے رکن ممالک ملائشیا، سینیگال اور سری لنکا نے اسرائیل اور فلسطینی مسلح گروہوں سے کہا ہے کہ وہ پائیدار جنگ بندی اور تمام یرغمالیوں کی رہائی پر بلاتاخیر اتفاق کریں۔ پینل کو حراستی مراکز تک بلارکاوٹ رسائی دی جائے اور غزہ میں حسب ضرورت انسانی امداد کی فراہمی کے لیے تمام سرحدی راستے کھولے جائیں۔
‘انروا’ کے خلاف مہم روکنے کا مطالبہ
پینل نے ‘انروا’ کو بدنام کرنے کی مہم کو قابل مذمت قرار دیتے ہوئے اسے فوری طور پر روکنے کو کہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ غزہ کی جنگ کے بارے میں اطلاعات کو دبانے کے اقدامات بھی باعث تشویش ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے ذرائع ابلاغ پر سنسرشپ کا نفاذ اور حکومت کے مخالفین اور صحافیوں پر جبر اطلاعات تک رسائی کو روکنے کی دانستہ کوشش ہے۔
پینل نے یہ بھی کہا ہے کہ سوشل میڈیا کی کمپنیاں فلسطینیوں کے خلاف تشدد کی ترغیب دینے والے مواد مقابلے میں ان کے حق میں پوسٹ کیے جانے والے مواد کو غیرمتناسب طور سے ہٹا رہی ہیں۔
جان لیوا محاصرہ
امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) نے غزہ کی جنگ کے تناظر میں علاقے کی تازہ ترین صورتحال سے متعلق اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ شمالی غزہ میں امداد فراہم کرنے کی متعدد کوششیں اسرائیل کی جانب سے اجازت نہ ملنے یا طویل التوا کے باعث کامیاب نہیں ہو سکیں۔ گزشتہ دو روز میں چھ امدادی مشن شمالی غزہ میں نہیں جا سکے جن کے ذریعے جبالیہ، بیت حنون اور بیت لاہیہ میں انسانی امداد اور بچوں کے لیے نفسیاتی طبی مدد پہنچائی جانا تھی۔
فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انروا) کے مطابق، شمالی غزہ میں لوگ رہائشی عمارتوں میں پھنس کر رہ گئے ہیں جن کے پاس خوراک، پانی اور ادویات ختم ہو چکی ہیں۔
ادارے کی سینئر ایمرجنسی آفیسر لوسی ویٹریج نے بتایا ہے کہ سڑکوں اور گلیوں میں جا بجا لاشیں بکھری ہیں۔ علاقے میں طبی مدد کی فراہمی بند ہو چکی ہے جہاں بیمار اور زخمی لوگوں کو گدھا گاڑیوں کے ذریعے ہسپتالوں میں لے جایا جا رہا ہے جو جزوی طور پر ہی فعال رہ گئے ہیں۔
بڑے پیمانے پر نقل مکانی
‘اوچا’ کے مطابق، غزہ کی پٹی میں تقریباً 79 فیصد علاقے کی آبادی کو ایک یا اس سے زیادہ مرتبہ انخلا کے احکامات دیے جا چکے ہیں۔ بیشتر لوگ پناہ کے لیے جنوبی غزہ کے ساحلی علاقے المواصی کا رخ کر رہے ہیں جہاں بنیادی ڈھانچے اور ضروری خدمات کا فقدان ہے۔
غزہ کے طبی حکام نے بتایا ہے کہ گزشتہ 13 ماہ کے دوران 43,736 لوگ ہلاک اور 103,370 زخمی ہوئے ہیں۔ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کیے جانے والے حملوں میں 24 فلسطینیوں کی ہلاکت ہوئی جبکہ 112 زخمی ہو گئے۔