غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی میں حائل کڑی رکاوٹوں کے باعث بڑے پیمانے پر بھوک پھیل رہی ہے۔ علاقے میں قحط کے سنگین خطرے کے پیش نظر منگل کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بھی طلب کر لیا گیا ہے۔
امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) نے بتایا ہے کہ اسرائیل کے حکام نے غزہ میں امداد پہنچانے کے لیے اس کی 43 فیصد درخواستیں مسترد کر دی ہیں جبکہ 16 زیرالتوا ہیں۔ اسرائیل کے حکام نے غزہ کی جانب ایریز کا سرحدی راستہ بند کر کے بیت لاہیہ، بیت حنون اور جبالیہ سمیت متعدد شمالی علاقوں کا محاصرہ کر رکھا ہے۔
Aid workers are deployed across #Gaza but their ability to operate is obstructed.
— OCHA OPT (Palestine) (@ochaopt) November 12, 2024
43% of our movements coordinated with the Israeli authorities in October were rejected and a further 16% faced impediments.#AccessDenied
The full update: https://t.co/8U9ae2Gwac pic.twitter.com/ElHtcuXy8n
اکتوبر میں امدادی سرگرمیوں کی راہ میں حائل رکاوٹوں میں مزید اضافہ دیکھنے کو ملا۔ عدم تحفظ، اسرائیلی فوج کے محدود تعاون اور نظم و نسق ختم ہو جانے کے باعث مسلح افراد کی منظم لوٹ مار کے نتیجے میں وادی غزہ کے جنوب میں امدادی سرگرمیاں انتہائی محدود ہو گئی ہیں۔
انسانی امداد کی شدید قلت
فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انروا) کی ایمرجنسی آفیسر لوسی ویٹریج نے بتایا ہے کہ اس وقت غزہ میں آنے والی امداد کی مقدار اب تک کی کم ترین سطح پر ہے۔
اکتوبر میں علاقے کی 23 لاکھ آبادی کے لیے روزانہ اوسطاً 37 ٹرک امداد لے کر غزہ میں آئے۔ جنگ سے پہلے ان کی روزانہ اوسط تعداد 500 تھی۔
غذائی تحفظ کے ماہرین خبردار کر چکے ہیں کہ غذائی قلت کے باعث شمالی غزہ میں قحط کا خطرہ منڈلا رہا ہے جس کا سدباب کرنے کے لیے متحارب فریقین کو ہفتوں نہیں بلکہ دنوں میں ضروری اقدامات کرنا ہوں گے۔
بچوں اور معمر افراد کی ہلاکتیں
‘انروا’ نے بتایا ہے کہ شمالی غزہ میں خوراک کی اس قدر قلت ہے کہ لوگ روٹی اور پانی کے لیے بھیک مانگتے دکھائی دیتے ہیں۔ امدادی اداروں کو تقریباً ایک ماہ سے علاقے میں رسائی نہیں مل سکی۔
علاقے میں باقی ماندہ طبی مراکز میں خون اور ادویات کی شدید قلت ہے۔ راستوں میں جا بجا لاشیں بکھری دکھائی دیتی ہیں کیونکہ انہیں اٹھانے کے لیے ایمبولینس گاڑیاں دستیاب نہیں ہیں۔
لوسی ویٹریج نے بتایا ہے کہ انسانی امداد کی فراہمی تقریباً مکمل طور پر بند ہو جانے کے باعث علاقے میں قحط جیسے حالات واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ روزانہ بڑی تعداد میں بچوں اور معمر افراد کی ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔ لوگوں کو جس طرح کے حالات درپیش ہیں انہیں کسی صورت قابل قبول قرار نہیں دیا جا سکتا۔