گزشتہ برس جنگوں میں ہلاک ہونے والی خواتین کی تعداد 2022 کے مقابلے میں دو گنا زیادہ رہی جبکہ مسلح تنازعات کے دوران جنسی تشدد کے واقعات میں 50 فیصد اضافہ ہوا۔
‘خواتین، امن اور سلامتی’ کے موضوع پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی تازہ ترین سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2023 میں جنگوں کے دوران ہلاک ہونے والے شہریوں میں خواتین کا تناسب 40 فیصد تھا۔
The proportion of women killed in armed conflicts globally doubled in 2023 – an intolerable & alarming reality.
— Sima Bahous (@unwomenchief) October 23, 2024
This must end.
SG @antonioguterres' report on #WPS outlines 8 actions for policymakers & stakeholders to advance women's vital role in peace & security.
Find out… pic.twitter.com/XF75J3p3vA
یہ رپورٹ اقوام متحدہ میں خواتین کے ادارے ‘یو این ویمن’ کی قیادت میں تیار کی گئی ہے جس کا کہنا ہے کہ جنگوں میں خواتین اور بچوں کو تحفظ دینے کے بین الاقوامی قانون کی کھلی پامالی کے واقعات بڑھ گئے ہیں جس کا براہ راست نتیجہ ان ہلاکتوں میں اضافے کی صورت میں نکلا ہے۔
مردوں کی جنگیں، خواتین کا نقصان
اقوام متحدہ نے بتایا ہے کہ گزشتہ سال جنگوں میں مجموعی طور پر 33,443 شہری ہلاک ہوئے جو 2022 کے مقابلے میں 72 فیصد بڑی تعداد ہے۔ اس دوران خواتین اور بچوں کی ہلاکتوں میں بالترتیب دو اور تین گنا اضافہ دیکھنے کو ملا۔
رپورٹ کے مطابق، جنگ زدہ علاقوں میں خواتین طبی سہولیات کے فقدان سے بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔ جنگ سے متاثرہ ممالک میں 500 خواتین اور لڑکیاں حمل اور زچگی کی پیچیدگیوں کے باعث موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ 2023 کے آخر تک جنگ زدہ غزہ میں روزانہ 180 خواتین ضروری سہولیات یا طبی نگہداشت کے بغیر بچوں کو جنم دے رہی تھیں۔
یو این ویمن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیما باحوس کا کہنا ہے کہ خواتین مردوں کی جنگوں کی قیمت چکا رہی ہیں جبکہ انہیں ہر جگہ پہلے ہی مشکل حالات کا سامنا ہے۔ خواتین کے حقوق کو دانستہ ہدف بنانا صرف جنگ زدہ ممالک سے ہی مخصوص نہیں بلکہ دیگر جگہوں پر اور پرامن حالات میں بھی ان کے خلاف انتہائی خطرناک اقدامات دیکھنے کو ملتے ہیں۔
امن عمل میں خواتین کا کردار
یہ رپورٹ ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب سلامتی کونسل کی جانب سے ‘خواتین، امن اور سلامتی’ کے موضوع پر تاریخی قرارداد 1325 (2000) کی منظوری کو 25 برس مکمل ہو رہے ہیں۔
اس قرارداد میں تنازعات کی روک تھام اور انہیں حل کرنے میں خواتین کے اہم کردار کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اس میں متحارب فریقین سے کہا گیا ہے کہ وہ مسلح تنازعات میں خواتین اور لڑکیوں کا تحفظ یقینی بنائیں اور خواتین کو امن عمل میں بھرپور نمائندگی دیں۔
تاہم اس ربع صدی میں ممالک کی جانب سے کیے گئے بہت سے وعدوں کے باوجود صورتحال میں نمایاں بہتری نہیں آ سکی۔ گزشتہ سال دنیا بھر میں امن کے لیے کی جانے والی 50 سے زیادہ کوششوں میں خواتین مذاکرات کاروں کی تعداد 10 فیصد سے بھی کم تھی جبکہ جائزوں سے ثابت ہے کہ جب خواتین کو اس عمل میں شامل کیا جاتا ہے تو امن معاہدے زیادہ پائیدار ہوتے ہیں اور ان پر بہتر طور سے عملدرآمد ہوتا ہے۔
رپورٹ میں اس کی مثال پیش کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ یمن میں خواتین کے زیرقیادت ایک امن عمل کے نتیجے میں شہریوں کی پانی کے ذریعے تک رسائی ممکن ہوئی۔ سوڈان میں خواتین کے زیرقیادت 49 تنظیمیں مزید مشمولہ امن عمل کے لیے کوششیں کر رہی ہیں۔ تاہم، ان کے لیے تعاون کا فقدان ہے یا امن بات چیت میں ان کے کردار کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔
وسائل کی شدید قلت
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مالی وسائل کی قلت بھی امن عمل میں خواتین کی خاطرخواہ نمائندگی اور ان کے فعال کردار کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ 2023 میں عالمی سطح پر جنگی اخراجات 2.44 ٹریلین ڈالر کی ریکارڈ سطح پر پہنچے لیکن خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تحریکوں اور تنظیموں کو دیے جانے والے مالی وسائل مجموعی سالانہ عالمی امداد کا صرف 0.3 فیصد تھے۔
علاوہ ازیں، صنفی بنیاد پر تشدد کی روک تھام اور اس پر قابو پانے کے اقدامات پر سرمایہ کاری تمام تر امدادی اخراجات کے ایک فیصد سے بھی کم رہی۔
دلیرانہ اقدامات کی ضرورت
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دلیرانہ سیاسی اقدامات اور بڑے پیمانے پر مالی وسائل کی فراہمی سے ہی امن عمل میں خواتین کی مساوی اور بامعنی شمولیت یقینی بنائی جا سکتی ہے جو پائیدار امن کے لیے بہت ضروری ہے۔
اس میں امن و سلامتی کے لیے کی جانے والی کوششوں میں خواتین کے کردار کو بڑھانے کےلیے آٹھ سفارشات پیش کی گئی ہیں۔ ان میں ثالثی اور امن عمل میں خواتین کی نمائندگی کو مردوں کے مقابلے میں ابتداً ایک تہائی تک بڑھانا اور پھر اسے 50 فیصد تک لے جانا بھی شامل ہے۔