غزہ میں ہولناک بمباری اور صاف پانی، خوراک اور طبی سہولیات کی قلت جیسے خطرناک حالات میں بچے کو جنم دینے والی ایک ماں نے طبی عملے کے لیے شکریے کا خط لکھا اور اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ ہر مشکل کا مقابلہ کرتے ہوئے زندہ رہیں گی اور آگے بڑھیں گی۔
انہوں نے خان یونس کے ایک فیلڈ ہسپتال میں اپنے بچے کی پیدائش میں مدد دینے والے انتھک طبی عملے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب ان کے ہاں بیٹے نے جنم لیا تو اس وقت راکٹوں اور بموں کی آواز ان کی خوشی پر غالب آ رہی تھی۔ لیکن ہسپتال کے ڈاکٹروں اور معاون عملے کے انسان دوست اور بہترین پیشہ وارانہ طرزعمل نے ان میں جینے اور مشکلات پر غالب آنے کی نئی امنگ پیدا کر دی ہے۔
علاء غزہ کی پٹی میں ان 155,000 حاملہ اور حال ہی میں بچوں کو جنم دینے والی خواتین میں سےایک ہیں جن کی زچگی بمباری تلے خیموں میں ہوتی ہے اور اکثر انہیں کسی طرح کی مدد، ادویات حتیٰ کہ صاف پانی تک بھی رسائی نہیں ہے۔
تباہ کن حالات
غزہ میں حاملہ خواتین بھوک سے نڈھال ہیں، علاقے میں طبی سہولیات تقریباً مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں اور کوئی ہسپتال پوری طرح کام نہیں کر رہا۔ چند ہی جگہیں ایسی ہیں جہاں یہ خواتین کسی قدر طبی نگہداشت اور علاج کی سہولت حاصل کر سکتی ہیں۔
500,000 سے زیادہ خواتین کی قبل اور بعد از زچگی طبی خدمات تک رسائی نہیں رہی۔ انہیں خاندانی منصوبہ بندی اور ضروری علاج معالجے کی سہولیات بھی میسر نہیں ہیں۔ 17 ہزار سے زیادہ حاملہ خواتین شدید غذائی قلت کے باعث قحط کے دھانے پر ہیں۔
طبی مراکز پر سیکڑوں حملوں کے بعد اب غزہ کے 36 ہسپتالوں میں سے 17 ہی فعال ہیں جن میں جزوی حد تک ہی طبی خدمات ہی میسر ہیں۔
علاقے میں ایندھن اور ضروری سامان کی قلت خطرناک حدود سے تجاوز کر گئی ہے، طبی کارکن ہلاک ہو رہے ہیں یا اپنے علاقوں نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ جو کام کر رہے ہیں ان پر بہت بڑی تعداد میں زخمیوں اور بیمار لوگوں کا بوجھ ہے جبکہ 25 سال کے بعد علاقے میں پولیو نے بھی دوبارہ سر اٹھا لیا ہے۔
بے گھری کا دکھ
یہ نومبر 2023 کا ایک دن تھا جب علاء کو علم ہوا کہ وہ ماں بننے والی ہیں۔ اس وقت غزہ میں جنگ شروع ہوئے تقریباً ایک ماہ ہو چکا تھا۔
علاء اپنے خط میں لکھتی ہیں کہ جب ان کے حمل کو سات مہینے گزر گئے تو انہیں بمباری سے بچنے کے لیے اپنا گھر چھوڑ کر ایک خیمے میں پناہ لینا پڑی۔ اس موقع پر وہ یہ سوچ کر بہت روئیں کہ ان کا بچہ اپنے اس کمرے کو کبھی نہیں دیکھ سکے گا جسے اس کی خاطر سجانے کا خواب وہ شروع دن سے دیکھتی آئی تھی۔
تاہم، ان کی اذیت یہیں ختم نہ ہوئی بلکہ انہیں ایک مرتبہ پھر اپنی جگہ چھوڑنا پڑی۔
علاء کہتی ہیں کہ بچے کو اپنے گھر سے باہر جنم دیتے ہوئے وہ بے حد دکھی تھیں۔ 50 روز کے بعد وہ آسمان سے بموں کی صورت میں برستی آگ سے بچنے کے لیے چیختی ہوئی بھاگ رہی تھیں۔ اس موقع پر انہیں یوں محسوس ہوا کہ جیسے وہ اپنے پیٹ میں موجود بچے کو کھو دیں گی۔
علاء نقل مکانی کے وقت کو یاد کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ دوسری مرتبہ ٹھکانہ چھوڑنے کے بعد نہ تو ان کے پاس پناہ تھی اور نہ ہی انہیں اپنی منزل کا کوئی علم تھا۔ انہوں نے دوبارہ ایک خیمہ کھڑا کیا اور عہد کیا کہ خواہ کیسے بھی حالات ہوں وہ زندہ رہیں گی۔
غزہ میں اس وقت تقریباً 19 لاکھ لوگ علاء کی طرح بے گھر ہیں۔ ان میں بہت سے ایسے ہیں جنہیں گزشتہ ایک سال کے عرصہ میں کئی مرتبہ نقل مکانی کرنا پڑی ہے۔ ایسے حالات میں حاملہ خواتین کی تکالیف اور بھی بڑھ جاتی ہیں۔
اس جنگ کے آغاز سے ہی حادثاتی طور پر حمل ساقط ہونے، زچگی کی پیچیدگیوں، کم وزن بچوں کی پیدائش اور قبل از وقت زچگیوں میں خطرناک حد تک اضافے کے بارے میں خبردار کر دیا گیا تھا۔ ذہنی و جسمانی دباؤ، غذائی قلت اور زچگی میں طبی نگہداشت کا تقریباً مکمل فقدان اس کے بنیادی اسباب بتائے گئے۔
امید کی کرن
ان کا کہنا ہے کہ دو ہفتے گزر جانے کےبعد انہیں جسم میں درد محسوس ہوا۔ پہلے انہوں نے سوچا کہ یہ زچگی کا درد ہے۔ اس کے بعد انہیں خیال آیا کہ شاید ابھی زچگی کا وقت ابھی نہیں آیا۔ وہ اپنے گھر میں بچے کو جنم دینا چاہتی تھیں۔
یہ درد چار روز تک جاری رہا جس کے بعد وہ ایک غیرسرکاری تنظیم ‘یوکے۔میڈ’ کے زیراہتمام خان یونس میں چلائے جانے والے فیلڈ ہسپتال میں گئیں۔ وہاں برطانیہ اور جنسی و تولیدی صحت کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایف پی اے) کی مدد سے خصوصی زچہ وارڈ قائم ہے۔
وہ لکھتی ہیں کہ جب انہوں نے اس ہسپتال سے اپنا طبی معائنہ کروایا تو سب کچھ ٹھیک ٹھا۔ وہاں طبی عملہ نہایت عمدگی اور مہربانی سے پیش آیا۔ جب انہوں نے ہسپتال کی ڈاکٹر ہیلن سے بات کی تو انہوں نے انہیں کہا کہ وہ یہیں آ کر بچے کو جنم دیں۔ چنانچہ جب زچگی کا وقت آیا تو ہسپتال کے عملے نے اس کی بحفاظت پیدائش یقینی بنائی۔
علاء دوپہر دو بجے سیدھی ہسپتال پہنچی تھیں اور وہاں عملہ ان کی زچگی کے لیے تیار تھا۔ تاہم، انہیں پہلے ہی بتا دیا گیا کہ ‘نارمل ڈلیوری’ ممکن نہیں اور ایسا کرنا ان کی اور بچے کی زندگی کے لیے بہت خطرناک ہو گا۔
جنگ، صافی پانی کی کمی، خوراک کی قلت اور تحفظ کے فقدان کے باوجود علاء کی زچگی کامیاب رہی۔
‘یو این ایف پی اے’ کی طبی خدمات
‘یو این ایف پی اے’ نے اس ہسپتال کو زچہ وارڈ کی سہولت فراہم کی ہے اور وہاں تولیدی صحت کا سامان بھی مہیا کیا جاتا ہے۔ ادارہ یہ بھی یقینی بناتا ہے کہ ہسپتال کا عملہ ہنگامی حالات میں آپریشن کے ذریعے بچے کی پیدائش سمیت حاملہ خواتین کو جامع نگہداشت مہیا کرے گا۔
ادارہ اور اس کے شراکت دار بہت سی خیمہ بستیوں میں حاملہ خواتین کے لیے تولیدی صحت کی خدمات، ضروری سہولیات، طبی سازوسامان اور مہارت یافتہ عملہ مہیا کر رہے ہیں۔
ادارے نے غزہ کے فیلڈ ہسپتالوں میں چھ متحرک زچہ طبی یونٹ قائم کیے ہیں تاکہ ماؤں اور ان کے نومولود بچوں کو ضروری سہولیات مہیا کی جا سکیں۔ تاہم جنگ بندی، طبی خدمات اور معقول مقدار میں وسائل کے بغیر یہ مدد جاری رکھنا ممکن نہیں ہے۔
علاء نے تمام تر مشکلات کے باوجود ہمت نہیں ہاری۔ وہ اپنی اور اپنے نومولود بیٹے محمد کی جانب سے ہسپتال کے تمام عملے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کرتی ہیں کہ حالات بہتر ہو جانے پر ان سے دوبارہ ملیں گی۔