غزہ کے فلسطینی ایک سال سے جاری جنگ میں ناقابل بیان مصائب کا سامنا کر رہے ہیں جن میں بہت سے لوگوں نے اپنے پورے کے پورے خاندانوں کو کھو دیا ہے اور نہیں جانتے کہ آنے والے وقت میں ان کے ساتھ کیا بیتے گی۔
شمالی غزہ کے پناہ گزین کیمپ میں رہنے والے احمد ابو ایطا کی اہلیہ اور بیٹے سمیت ان کے 45 رشتہ دار جنگ کے شعلوں کی نذر ہو چکے ہیں۔ 20 اکتوبر 2023 کو فضائی بمباری میں ان کا دودھ کی مصنوعات اور پنیر کا خاندانی کاروبار بھی تباہ ہو گیا تھا۔
انہوں نے غزہ میں یو این نیوز کے نمائندے زید طالب کو بتایا کہ اپنے خاندان، بیٹے اور اہلیہ کو کھونے کا دکھ ناقابل بیان ہے۔ حملے میں جب ان کا گھر تباہ ہوا تو وہ ملبے تلے دب گئے تھے۔ وہ دو روز تک مدد کے لیے پکارتے رہے اور پھر کہیں جا کر انہیں وہاں سے نکالا گیا۔ ان کے خاندان کے متعدد افراد کی لاشیں تاحال اسی ملبے تلے دفن ہیں۔
بے گھری اور متواتر نقل مکانی
7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حماس اور دیگر فلسطینی گروہوں کے حملوں میں 1,200 افراد ہلاک ہو گئے تھے اور 250 سے زیادہ لوگوں کو یرغمال بنا لیا گیا۔
ان حملوں کے جواب میں غزہ پر اسرائیل کے فضائی اور زمینی حملوں میں شدید درجے کی تباہی دیکھنے کو ملی۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کی کارروائی میں اب تک 40 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
علاوہ ازیں، غزہ کی 90 فیصد آبادی بے گھر ہو گئی ہے جس میں بڑی تعداد کو کئی مرتبہ نقل مکانی کرنا پڑی۔
‘سزائے موت’ کا انتظار
امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) کے اعلیٰ سطحی عہدیدار جوناتھن ویٹل کا کہنا ہے کہ غزہ کے بیشتر لوگ خود کو سزائے موت کا منتظر محسوس کرتے ہیں۔
لوگ یا تو بموں اور گولیوں کا نشانہ بن رہے ہیں یا اپنی بقا کے لیے درکار وسائل نہ ہونے کے باعث سست روی سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ اب اہمیت صرف اس بات کی ہے کہ موت کتنی جلدی یا کتنی دیر سے آئے گی۔
تباہی اور مایوسی
جوناتھن ویٹل نے کہا ہے کہ ایک سال سے جاری تباہی کے نتیجے میں غزہ کھنڈر بن چکا ہے جہاں محض 13 فیصد رقبے تک محدود ہو جانے والے بے گھر لوگ مایوسی کا شکار ہیں۔
ابو ایطا خواہش کرتے ہیں کہ زندگی اسی حال میں لوٹ آئے جو جنگ سے پہلے تھی۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ شہید ہونے والے ان کے رشتہ دار واپس نہیں آ سکتے۔
وہ ایک سکول میں قائم پناہ گاہ کے کمرے میں 12 لوگوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ غزہ میں بدترین ہوتے انسانی حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ لوگوں کو فلٹر شدہ پانی کے دو گیلن لینے کے لیے گرمی میں طویل قطاروں میں کھڑا ہو کر انتظار کرنا پڑتا ہے۔ آگ جلانے کے لیے لکڑی جمع کرنا بھی بہت مشکل کام ہے۔
جوناتھن ویٹل نے غزہ میں خوراک، پانی، پناہ اور طبی سہولیات کی قلت کا تذکرہ کرتے ہوئے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ انسانی امداد کی فراہمی کے لیے ‘اوچا’ کی راہ میں رکاوٹیں عائد کی جا رہی ہیں۔
تعمیرنو کا عزم
تمام تر تباہی اور نقصان کے باوجود ابو ایطا کا عزم مضبوط ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قابض طاقت ان لوگوں پر خواہ کتنے ہی مظالم کیوں نہ ڈھائے اور کتنی ہی تباہی کیوں نہ مسلط کرے وہ اپنی زندگیاں دوبارہ تعمیر کریں گے اور پہلے سے زیادہ مضبوط ہو جائیں گے۔
وہ مستقبل میں اپنا کاروبار دوبارہ شروع کرنے اور اپنے والد کا نام زندہ رکھنے کے خواہش مند ہیں۔