اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) نے بتایا ہے کہ میانمار میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی اور نظم و نسق کا بحران جاری ہے جہاں فوجی بغاوت کے بعد اب تک 5,350 شہری ہلاک اور 33 لاکھ بے گھر ہو چکے ہیں۔
‘او ایچ سی ایچ آر’ کی جانب سے میانمار میں انسانی حقوق کی صورتحال پر جاری کردہ تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں انسانی بحران شدید ہو گیا ہے اور نصف سے زیادہ آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے جس کی بڑی وجہ ملکی افواج کی جانب سے لوگوں پر کیا جانے والا تشدد ہے۔
New @UNHumanRights report shows #Myanmar continues to plumb the depths of the human rights abyss since the 2021 coup, primarily due to military violence.@volker_turk calls for full scope of situation to be referred to @IntlCrimCourt.
— UN Human Rights (@UNHumanRights) September 17, 2024
فوج کے برسراقتدار آنے کے بعد ملک میں 27,400 لوگوں کو حراست میں لیا جا چکا ہے اور رواں سال فروری میں فوجی خدمت لازمی قرار دیے جانے کے قانون پر عملدرآمد شروع ہونے کے بعد یہ تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔
زیر حراست اموات
رپورٹ کے مطابق، مصدقہ ذرائع نے بتایا ہے کہ ملک میں فوجی بغاوت کے بعد کم از کم 1,853 افراد حراستی مراکز میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں 88 بچے اور 125 خواتین بھی شامل ہیں۔
‘او ایچ سی ایچ آر’ کی ترجمان لز تھروسیل کا کہنا ہے کہ ان میں بہت سے لوگوں کی موت پرتشدد تفتیش، دوران قید بدسلوکی یا صحت کی مناسب سہولیات تک رسائی روکے جانے کے باعث ہوئی۔
تباہی اور محرومی
ادارے کی ترجمان لز تھروسیل نے جنیوا میں صحافیوں کو بتایا کہ رپورٹ میں تشدد اور محرومی کے لوگوں کی ذہنی صحت پر مرتب ہونے والے اثرات اور معاشی و سماجی حقوق کی خراب ہوتی صورتحال کا تذکرہ بھی شامل ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ نوجوانوں کی بڑی تعداد فوج میں بھرتی اور جنگ سے بچنے کے لیے بیرون ملک ہجرت کر رہی ہے جس کے ملکی مستقبل پر دور رس منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
قیدیوں پر بدترین تشدد
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ میانمار میں دوران حراست تشدد یا بدسلوکی عام ہے۔
میانمار میں انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لینے والی اقوام متحدہ کی ٹیم کے سربراہ جیمز روڈیور نے ایسے چند طریقوں کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ قیدیوں کی کوٹھڑیوں میں سانپ یا خطرناک حشرات چھوڑے جاتے ہیں جس کا مقصد انہیں دہشت زدہ کرنا ہوتا ہے۔ قیدیوں کو لوہے کی سلاخوں، بانس کے ڈنڈوں، رائفلوں کے دستوں، چمڑے کے کوڑوں، بجلی کی تاروں اور موٹرسائیکل کے چین جیسی چیزوں سے مارا پیٹا جاتا ہے۔
قید خانوں میں زیرحراست لوگوں کا دم گھونٹنے، بناوٹی سزائے موت دینے، انہیں بجلی کے جھٹکے لگانے اور ٹیزر، لائٹر، سگریٹ اور ابلتے پانی سے جلانے کے واقعات بھی عام ہیں۔
محاسبے کا مطالبہ
‘او ایچ سی ایچ آر’ نے میانمار میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں اور بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی کا ارتکاب کرنے والوں کے محاسبے کا مطالبہ کیا ہے۔
لز تھروسیل نے بتایا ہے کہ اس رپورٹ کی روشنی میں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے سلامتی کونسل پر زور دیا ہے کہ وہ میانمار کی موجودہ صورتحال پر بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) سے رجوع کرے۔
انہوں نے میانمار کے فوجی حکمرانوں سے ملک میں تشدد کا خاتمہ کرنے اور ناجائز طور پر قید تمام لوگوں کی فوری اور غیرمشروط واپسی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔