اقوام متحدہ کے اعلیٰ حکام نے خبردار کیا ہے کہ شام میں ایک دہائی پر مشتمل خانہ جنگی کے باعث انسانی و سیاسی بحران شدت اختیار کر گیا ہے اور دنیا اس مسئلے کو نظرانداز کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
ہنگامی امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) کی نائب سربراہ جوئس مسویا نے کہا ہے کہ شام کے 60 لاکھ سے زیادہ شہری بیرون ملک پناہ گزین ہیں یا پناہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ 70 لاکھ لوگ اندرون ملک بے گھر ہو چکے ہیں۔
سلامتی کونسل میں شام کے مسئلے پر منعقدہ اجلاس میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ملک میں ایک کروڑ 70 لاکھ لوگوں یا 70 فیصد سے زیادہ آبادی کو انسانی امداد اور تحفظ کی ضرورت ہے جبکہ خواتین اور بچوں کے لیے حالات خاص طور پر مشکل ہو گئے ہیں۔
غیرمعمولی انسانی بحران
شام گزشتہ سال فروری میں آنے والے تباہ کن زلزلوں کے اثرات سے تاحال نبردآزما ہے۔ اس آفت میں بڑے پیمانے پر زندگیوں اور املاک کا نقصان ہوا۔
جوئس مسویا نے رکن ممالک کو بتایا کہ ملک میں انسانی تکالیف غیرمعمولی حدود کو چھو رہی ہیں۔ مقامی لوگوں کی زندگیوں اور روزگار کو بحال کرنے اور انسانی امداد پر ان کی محتاجی کو ختم کرنے کے لیے مزید امدادی وسائل مہیا کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ شام کے مسئلے کو پائیدار طور سے حل کرنے کے لیے ملک سے تشدد کا خاتمہ کرنا ضروری ہے۔ اس ضمن میں غزہ کی جنگ سے پیدا ہونے والے علاقائی عدم استحکام کی وجوہات پر بھی قابو پانا ہو گا۔
علاقائی کشیدگی کے اثرات
شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے جیئر پیڈرسن نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ مشرق وسطیٰ میں تناؤ بڑھ گیا ہے۔ اسرائیل اور لبنان کے جنگجو گروہ حزب اللہ کی جانب سے ایک دوسرے پر حملے جاری ہیں۔ شام اس تنازع اور کشیدگی سے محفوظ نہیں ہے۔ اسرائیل نے اس کے شہر حمہ، حما اور دیرہ پر بھی حملے کیے ہیں جن میں بچوں سمیت متعدد شہریوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔
شمال مشرقی شام میں امریکہ کے فوجی اڈوں کو بھی حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ امریکہ نے ان کارروائیوں کی ذمہ داری ایران کے حمایت یافتہ گروہوں پر عائد کی ہے۔
پیڈرسن کا کہنا تھا کہ سبھی کے لیے طویل مدتی امن و استحکام یقینی بنانے کے ارادے سے علاقائی کشیدگی میں کمی لانے کی کوششوں میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں، غزہ میں فوری جنگ بندی اور اسرائیل۔لبنان سرحد (بلیو لائن) پر امن لانا بھی ناگزیر ہے۔
سیاسی عمل کی ضرورت
انہوں نے کونسل کے ارکان کو بتایا کہ شام میں قیام امن کے لیے سلامتی کونسل کی قرارداد 2254 کے تحت مختلف سیاسی دھڑوں کے مابین سیاسی عمل شروع کرانا ہو گا۔ اس میں شام کے مذاکراتی کمیشن، حکومت، خواتین، نوجوانوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کی شمولیت ہونی چاہیے۔
جیئر پیڈرسن نے تسلیم کیا کہ ملک میں پرتشدد تنازع کا حل ایک پیچیدہ اور انتہائی مشکل عمل ہو گا، تاہم انہوں نے واضح کیا کہ یہ سب کچھ کرنا ممکن ہے۔ تنازع طے کرنے کے لیے ملک میں سیاسی اتحاد اور بین الاقوامی تعاون کلیدی اہمیت رکھتے ہیں۔