اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے قطر کے وزیراعظم سے بات چیت کی ہے جبکہ 10 ماہ سے جاری جنگ میں علاقے میں انسانی حالات تباہ کن صورت اختیار کر چکے ہے۔
اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن ڈوجیرک نے نیویارک میں پریس بریفنگ کے دوران صحافیوں کو بتایا کہ سیکرٹری جنرل جنگ بندی کے لیے قطر میں ہونے والی بات چیت کا بغور جائزہ لے رہے ہیں۔ قطر کے وزیراعظم نے انہیں مذاکرات کے حوالے سے تازہ ترین صورتحال کے بارے میں آگاہی دی اور وہ ان سے رابطے میں رہیں گے۔
70% of @UNRWA schools have been hit in #Gaza since the war began – some are flattened, many severely damaged. The vast majority were sheltering displaced families.
— UNRWA (@UNRWA) August 19, 2024
This blatant disregard of international humanitarian law must stop. #ActForHumanity pic.twitter.com/yF2RBO4Sva
جنگ بندی کے لیے مصر، قطر اور امریکہ کی ثالثی میں ہونے والی بات چیت بدھ کو قاہرہ میں ہو گی۔ سیکرٹری جنرل کو امید ہے کہ تنازع کے تمام فریقین سیاسی جرات اور ارادے سے کام لیتے ہوئے اس ضمن میں معاہدے پر پہنچ جائیں گے جس سے غزہ اور اسرائیل کے لوگوں اور یرغمالیوں سمیت سبھی کو فائدہ ہو گا۔
تباہ کن انسانی حالات
غزہ میں پہلے سے ہی تباہ کن حالات میں مزید بگاڑ پیدا ہو رہا ہے جہاں بڑی تعداد میں لوگ بدستور نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ عدم تحفظ، بنیادی ڈھانچے کی تباہی، جنگ اور محدود خدمات کے باعث انہیں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
9 اگست تک 115 یرغمالی غزہ میں قید تھے جن میں بعض کے بارے میں اطلاع ہے کہ وہ ہلاک ہو چکے ہیں۔ غزہ کی وزارت اطلاعات کے مطابق، 7 اکتوبر 2023 سے جاری اس جنگ میں 40 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک اور 92 ہزار سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔ علاقے کی 90 فیصد کے قریب آبادی بے گھر ہو گئی ہے جس میں بہت سے لوگوں کو کئی مرتبہ نقل مکانی کرنا پڑی ہے۔
بنیادی خدمات تک عدم رسائی
امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) نے خبردار کیا ہے کہ جنگ، آبادی کو انخلا کے متواتر احکامات اور ضروری سازوسامان کی قلت کے باعث بے گھر لوگوں کے لیے بنیادی خدمات تک رسائی نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔
سٹیفن ڈوجیرک نے بتایا کہ گزشتہ برس اکتوبر سے اب تک انخلا کے احکامات سے غزہ کی پٹی کا 86 فیصد علاقہ یا 314 مربع کلومیٹر رقبہ متاثر ہوا ہے۔ جنوبی غزہ کے ساحلی علاقے المواسی میں اس وقت تقریباً 34 ہزار لوگ جمع ہیں جبکہ جنگ سے قبل یہاں کی آبادی 1,200 تھی۔
ایندھن کی شدید قلت
غزہ میں ایندھن اور طبی سازوسامان کی قلت کے باعث بیشتر ہسپتال اور بنیادی مراکز صحت جزوی حد تک ہی فعال ہیں جبکہ شمالی غزہ میں یہ صورتحال اور بھی گھمبیر ہے۔
اس علاقے میں العودہ ہسپتال کے ڈائریکٹر نے کہا ہے کہ ایندھن کی قلت کے باعث مریضوں کے آپریشن منسوخ کر دیے گئے ہیں۔ بڑی تعداد میں لوگوں کی زندگیوں کو بچانے کی لیے ایندھن کی اشد ضرورت ہے تاکہ ہسپتال کی مشینری کو چالو رکھا جا سکے۔
‘اوچا’ نے بتایا ہے کہ کمال عدوان ہسپتال کی بھی یہی صورتحال ہے جبکہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور اس کے شراکت دار ان طبی مراکز کو ایندھن پہنچانے کے لیے کوشاں ہیں۔
فلسطینی ہلال احمر سوسائٹی (پی آر سی ایس) نے خبردار کیا ہے کہ ایندھن کی قلت کے باعث شمالی غزہ میں اس کی ایمبولینس گاڑیاں، ہنگامی کلینک اور امدادی خدمات غیرفعال ہونے کا خدشہ ہے۔ ادارے کی ٹیمیں اس وقت اپنی کم از کم صلاحیت سے ہی کام لے سکتی ہیں اور علاقے میں اس کی آٹھ میں سے دو ایمیبولینس گاڑیاں ہی فعال رہ گئی ہیں۔