اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے غزہ میں متحارب فریقین سے کہا ہے کہ وہ جنگ بند کر دیں تاکہ علاقے میں پانچ لاکھ سے زیادہ بچوں کو محفوظ طریقے سے پولیو کی ویکسین دی جا سکے۔
ان کا کہنا ہے کہ تمام فریق پولیو مہم کے لیے انسانی بنیادوں پر لڑائی روکنے کی یقین دہانی کرائیں۔ غزہ میں فلسطینیوں کو روزانہ پہلے سے بڑھ کر برے حالات کا سامنا ہوتا ہے۔ جب یہ سوچا جاتا ہے کہ حالات میں خرابی نے آخری حدود کو چھو لیا ہے تو اس میں مزید بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے جبکہ یہ تباہی دنیا کی نگاہوں کے سامنے رونما ہو رہی ہے۔
As the poliovirus is now circulating in Gaza, the @UN is poised to launch a vaccine campaign for more than 640,000 children.
— António Guterres (@antonioguterres) August 16, 2024
It's impossible to conduct a polio vaccination campaign amid a raging war.
Let’s be clear: The ultimate vaccine for polio in Gaza is peace and an… pic.twitter.com/gle5FZDzTt
نیویارک میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ امن اور انسانی بنیادوں پر فوری جنگ بندی ہی پولیو کے خطرے کو روکنے کا موثر ترین طریقہ ہے۔ لیکن موجودہ حالات میں اس مقصد کے لیے لڑائی روکنا ضروری ہے۔
سرحدوں سے ماورا بیماری
گزشتہ دنوں غزہ کے علاقے خان یونس اور دیرالبلح میں گندے پانی کے نمونوں میں پولیو وائرس کی نشاندہی ہوئی تھی۔ اس سے طبی ماہرین نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ بیماری غزہ میں موجود ہے جس سے علاقے میں لاکھوں بچوں کو خطرہ لاحق ہے۔
سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ پولیو کا مرض نہ تو انتظار کرتا ہے اور نہ ہی اسے سرحدوں کے اندر روکا جا سکتا ہے۔
ویکسین مہم کی منصوبہ بندی
اقوام متحدہ نے غزہ میں 10 سال سے کم عمر کے 640,000 بچوں کو دو مراحل میں پولیو ویکسین دینے کی منصوبہ بندی کی ہے۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے پہلے ہی ان بچوں کے لیے پولیو ویکسین کی 16 لاکھ خوراکیں جاری کرنے کی منظوری دے رکھی ہے۔ اقوام متحدہ کا ادارہ برائے اطفال (یونیسف) اس ویکسین کی ترسیل اور اسے ہر مرحلے پر ٹھنڈا رکھنے کے لیے درکار سازوسامان کی فراہمی کا بندوبست کر رہا ہے۔
فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انرا) کی طبی ٹیمیں بچوں کو یہ ویکسین لگانے اور اس کام کے لیے انتظامی مدد دینے کو تیار ہیں۔
خطرات اور خدشات
سیکرٹری جنرل نے اس مہم کو درپیش سنگین مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں صحت، پانی اور نکاسی آب کا نظام تباہ ہو چکا ہے۔ بیشتر ہسپتال اور بنیادی طبی مراکز فعال نہیں رہے اور لوگوں کو تحفظ کی تلاش میں متواتر ایک سے دوسری جگہ جانا پڑتا ہے۔
جنگ کے باعث بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے کا عمل بری طرح متاثر ہوا ہے جس کے نتیجے میں خسرہ، ہیپاٹائٹس اے اور دیگر قابل انسداد بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔
غزہ میں ہونے والی تباہی کو دیکھا جائے تو دو مراحل پر مشتمل پولیو مہم میں کم از کم 95 فیصد بچوں کو یہ ویکسین دینا ہو گی تاکہ اس بیماری کو روکا جا سکے۔
تحفظ کی ضرورت
اس مہم کے دوران 708 ٹیمیں ہسپتالوں اور بنیادی مراکز صحت میں بچوں کو ویکسین پلائیں گی۔ اس کےعلاوہ 318 ٹیمیں غزہ بھر میں لوگوں کے پاس جا کر انہیں ویکسین دیں گی۔ ویکسین کو ٹھنڈی حالت میں مطلوبہ جگہوں تک لانے اور اسے بچوں کو پلانے کے لیے نقل و حمل کی رکاوٹوں کو دور کرنا ہو گا، پولیو کے ماہرین کو غزہ آنے کی اجازت دینا ہو گی اور علاقے میں ایندھن بھی پہنچانا ہو گا۔
انتونیو گوتیرش کا کہنا تھا کہ پولیو مہم میں رابطوں کے لیے انٹرنیٹ اور فون کی قابل بھروسہ خدمات اور طبی کارکنوں کو اجرتوں کی ادائیگی کے لیے نقد رقم کی ضرورت بھی ہو گی۔ سب سے بڑھ کر اس مہم میں کام کرنے والوں کو تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی درکار ہے۔
علاوہ ازیں پولیو ویکسین کے لیے طبی مراکز کی جانب جانے والے بچوں اور خاندانوں کو بھی تحفط دینا ہو گا اور وہاں موجود طبی عملے کو بھی بمباری کا نشانہ نہ بنائے جانے کی ضمانت چاہیے۔
مشترکہ ذمہ داری
سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ہر طرف جاری جنگ کے دوران پولیو مہم چلانا ممکن نہیں ہے۔ پولیو سے تحفظ کے معاملے کو سیاست کی نذر نہیں ہونا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے اکٹھا ہونا اور لوگوں کے بجائے پولیو سے جنگ لڑنا سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ میں ایسے وائرس کو شکست دینے کا مسئلہ درپیش ہے جس کا پھیلاؤ روکنے کے اقدامات نہ کیے گئے تو ناصرف فلسطینی بچوں کو نقصان ہو گا بلکہ ہمسایہ ممالک اور پورا خطہ بھی اس سے متاثر ہو سکتا ہے۔