اقوام متحدہ کے امدادی اداروں نے بتایا ہے کہ غزہ میں جبری نقل مکانی کا نیا سلسلہ جاری ہے جبکہ اسرائیل کے زیرقبضہ شامی علاقے گولان میں فضائی حملے کے نتیجے میں 12 بچوں اور نوعمر افراد کی ہلاکتوں کے بعد علاقائی کشیدگی میں اضافہ ہو گیا ہے۔
فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انرا) کے مطابق اسرائیل کی فوج نے غزہ میں نصیرت اور گوریجی کے پناہ گزین کیمپوں سے لوگوں کو انخلا کے احکامات جاری کیے ہیں جس کے بعد ہزاروں کی تعداد میں لوگ تحفظ کی تلاش میں سرگرداں ہیں جو انہیں کہیں بھی میسر نہیں۔
Evacuation orders continue to be an almost daily occurrence for people in #Gaza, forced to pack whatever they can and then run, often with very little time to do so.
— UNRWA (@UNRWA) July 29, 2024
Families have to relocate again and again, knowing that safety is non-existent in the #GazaStrip. #CeasefireNow pic.twitter.com/4yidHr4KOn
ادارے کے کمشنر جنرل فلپ لازارینی نے کہا ہے کہ غزہ کا صرف 14 فیصد علاقہ ایسا ہے جہاں سے انخلا کے احکامات نہیں دیے گئے۔ 7 اکتوبر 2023 سے جاری جنگ میں غزہ کی تمام 22 لاکھ آبادی نے کسی نہ کسی مرحلے پر نقل مکانی ضرور کی ہے اور بہت سے لوگوں کو کئی مرتبہ بے گھر ہونا پڑا ہے۔
پانی کے پلانٹ کی تباہی
غزہ کے جنوبی علاقے رفح میں اسرائیل کے حملے میں پانی کا ایک پلانٹ تباہ ہو گیا ہے۔ غزہ میں ‘انرا’ کے امور کے ڈائریکٹر اور نائب امدادی رابطہ کار سکاٹ اینڈرسن نے کہا ہے کہ پلانٹ تباہ ہونے سے لوگوں کو پانی کی فراہمی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
فی الوقت ادارے کے لیے صورتحال کا آزادانہ طور سے جائزہ لینا ممکن نہیں ہے۔ اگر پلانٹ ناقابل استعمال ہو گیا تو اس سے بڑے پیمانے پر انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔
‘انرا’ کے مطابق، اسرائیل کی فوج ہر دوسرے روز کہیں نہ کہیں انخلا کے احکامات دے رہی ہے۔ امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) کے مطابق، گزشتہ ہفتے خان یونس اور دیرالبلح سے ایک لاکھ 90 ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا ہے۔
بچوں میں غذائی قلت
‘اوچا’ نے بتایا ہے کہ انخلا کے حالیہ احکامات اور شدید لڑائی کے باعث امدادی کارروائیاں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں اور خان یونس میں شہریوں کو ضروری مدد پہنچانے میں رکاوٹیں درپیش ہیں۔
عدم تحفظ اور امدادی عملے کے لیے غزہ میں داخلے اور واپسی کا ایک ہی راستہ (کیریم شالوم) مخصوص کیے جانے سے علاقے میں طبی ٹیموں کی آمد بھی متاثر ہوئی ہے جنہیں علاقے میں تھکے ماندے طبی کارکنوں سے تبدیل کرنا ضروری ہے۔
علاقے میں شدید غذائی قلت بچوں کی صحت پر اثر انداز ہو رہی ہے اور انہیں جسمانی کمزوری سے بچانے کے لیے درکار خوراک نہ ہونے کے برابر ہے۔
سکاٹ اینڈرسن کا کہنا ہے کہ جب بچوں کو شدید درجوں کی غذائی قلت درپیش ہو تو انہیں محض دودھ یا خوراک مہیا کر کے صحت مند نہیں بنایا جا سکتا۔ ماؤں کے لیے طویل وقفے کے بعد بچوں کو دوبارہ اپنا دودھ پلانا تقریباً نا ممکن ہوتا ہے اور غزہ کی مائیں طبی کارکنوں سے پوچھتی ہیں کہ ‘ان کی کیا مدد ہو سکتی ہے؟’
تعلیمی بحالی کا منصوبہ
‘انرا’ اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے غزہ میں جنگ کے باعث تعلیم سے محروم ہو جانے والے بچوں کے لیے یکم اگست سے خصوصی تدریس شروع کرنے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔
سکاٹ اینڈرسن نے کہا ہے کہ دونوں ادارے علاقے میں تمام چھ لاکھ بچوں کی تعلیم بحال کرنے کی کوشش کریں گے۔ امید ہےکہ اس طرح غزہ کو 7 اکتوبر سے قدرے بہتر حالات کی جانب لے جانے کا عمل شروع ہو گا تاکہ وہاں کی آبادی کو باوقار زندگی کا دوبارہ احساس ہو سکے۔
اقوام متحدہ کی جاری کردہ تازہ ترین معلومات کے مطابق، غزہ میں 93 فیصد سکولوں کو جنگ میں نقصان پہنچا ہے۔ ان میں ایک تہائی ‘انرا’ کے سکول تھے جہاں جنگ سے پہلے 14 ہزار اساتذہ تین لاکھ 70 ہزار بچوں کو تعلیم دیتے تھے۔
سکاٹ اینڈرسن کا کہنا ہے کہ یہ نہایت حیران کن بات ہے کہ غزہ کے لوگ اب بھی مسکرانا جانتے ہیں اور اب بھی اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے جذبے سے سرشار ہیں۔