غزہ کے مختلف علاقوں میں اسرائیلی فوج کی شدید بمباری اور حملے بدستور جاری ہیں جن میں اقوام متحدہ کے ایک امدادی قافلے کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔
فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انرا) کے مطابق، غزہ شہر کی طرف جانے والے راستے پر اسرائیلی فوج کی چوکی کے قریب کھڑے قافلے پر کم از کم پانچ گولیاں داغی گئیں۔ ادارے کے کمشنر جنرل فلپ لازارینی نے بتایا ہےکہ اس حملے میں ایک گاڑی بری طرح متاثر ہوئی تاہم خوش قسمتی سے کوئی امدادی کارکن ہلاک یا زخمی نہیں ہوا۔
#Gaza
— Philippe Lazzarini (@UNLazzarini) July 22, 2024
Heavy shooting from the Israeli Forces at a UN convoy heading to Gaza city.
While there are no casualties, our teams had to duck and take cover.
This took place yesterday. The teams were traveling in clearly marked UN armoured cars & wearing UN vests.
One vehicle…
کمشنر جنرل نے اس واقعے کے ذمہ داروں سے بازپرس یقینی بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج کو اس امدادی مشن کی روانگی کا علم تھا کیونکہ اسے بھیجنے سے پہلے قابض حکام سے منظوری بھی لی گئی تھی۔
خان یونس سے انخلا
جنوبی غزہ میں خان یونس پر اسرائیل کی فضائی بمباری اور توپخانوں کے حملے جاری ہیں جہاں اسرائیلی فوج نے لوگوں کو ایک مرتبہ پھر انخلا کا حکم دیا ہے۔ قبل ازیں خان یونس میں ایک علاقہ محفوظ قرار دے کر رفح سے آنے والے لوگوں کو اس جگہ جانے کے لیے کہا گیا تھا جہاں اب تک تقریباً چار لاکھ لوگوں نے پناہ لے رکھی تھی۔
امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) نے بتایا ہے کہ اکتوبر 2023 کے بعد غزہ میں تقریباً 90 فیصد لوگ کم از کم ایک مرتبہ ضرور نقل مکانی کر چکے ہیں۔
ان میں بیشتر آبادی انتہائی برے حالات کا شکار ہے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بتایا ہے کہ 7 جولائی تک تقریباً 10 لاکھ لوگ کسی نہ کسی وقت سانس کی شدید تکلیف میں مبتلا ہو چکے تھے۔ علاوہ ازیں، آلودہ پانی پینے کے نتیجے میں 575,000 افراد اسہال اور ایک لاکھ سے زیادہ یرقان کا شکار ہوئے ہیں۔ ادارے کا یہ بھی کہنا ہے کہ بیمار لوگوں کی حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
مغربی کنارے میں بچوں کی ہلاکتیں
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے بتایا ہے کہ 7 اکتوبر کے بعد مغربی کنارے میں ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد 2023 کے ابتدائی نو مہینوں کے مقابلے میں تین گنا بڑھ گئی ہے اور ہر دو روز میں اوسطاً ایک فلسطینی بچہ ہلاک ہو رہا ہے۔
ادارے کا کہنا ہے کہ 7 اکتوبر کے بعد مشرقی یروشلم سمیت مغربی کنارے میں 143 فلسطینی بچے ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ جنوری تا ستمبر 2023 یہ تعداد 41 تھی۔ گزشتہ نو مہینوں کے دوران علاقے میں زخمی ہونے والے فلسطینی بچوں کی تعداد 440 ہو گئی ہے۔ مغربی کنارے میں جاری تشدد کے دوران دو اسرائیلی بچوں کی ہلاکت بھی ہوئی ہے۔
یونیسف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے کہا ہے کہ مغربی کنارے کے بچے سالہا سال سے ہولناک تشدد کا سامنا کر رہے ہیں۔ غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد حالات میں مزید بگاڑ پیدا ہو گیا ہے۔ تواتر سے ایسی اطلاعات بھی آ رہی ہیں کہ سکول جاتے فلسطینی بچوں کو حراست میں لیا جاتا ہے یا سڑکوں پر چلتے ہوئے انہیں گولی مار دی جاتی ہے۔ یہ تشدد اب بند ہو جانا چاہیے۔
خوف کے سائے میں زندگی
یونیسف نے بتایا ہے کہ مغربی کنارے کے 11 میں سے 10 اضلاع میں بچوں کی ہلاکتوں کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔ ایسی بیشتر ہلاکتیں جینن، تلکرم اور نابلوس میں ہوئیں۔ گزشتہ دو سال کے دوران اسرائیل نے ان علاقوں میں بڑے پیمانے پر عسکری کارروائیاں کی ہیں۔
اس تشدد کے نتیجے میں ہزاروں بچوں اور ان کے خاندانوں کی جسمانی و ذہنی صحت بھی متاثر ہو رہی ہے جنہیں ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ وہ کسی بھی وقت راہ چلتے گولی کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ نقل و حرکت اور رسائی پر پابندیوں نے بھی بچوں اور ان کے خاندانوں کی زندگیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
یونیسف نے متحارب فریقین سے اپیل کی ہے کہ وہ بچوں کے حقوق کی سنگین پامالیوں کو فوری طور پر روکیں جن میں انہیں ہلاک و زخمی کرنا بھی شامل ہے۔ فریقین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو تحفظ دینے سے متعلق بین الاقوامی قانون کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں۔ بچوں کا زندگی کا حق قائم رہنا چاہیے اور انہیں کسی طرح کے تشدد کا نشانہ نہیں بنایا جانا چاہیے۔
کیتھرین رسل نے کہا ہے کہ فلسطینی ریاست اور اسرائیل میں تشدد کے حقیقی نقصان کا اندازہ بچوں کی زندگیوں سے ہی لگایا جا سکے گا جو اب ہمیشہ کے لیے تبدیل ہو چکی ہیں۔ بچوں کی خاطر تشدد کا خاتمہ کرنے اور بحران کا سیاسی حل نکالنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ امن و سلامتی سے اپنی پوری صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکیں۔