عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) نے قرار دیا ہےکہ مقبوضہ مغربی علاقے میں اسرائیل کی مسلسل موجودگی ‘غیرقانونی’ ہے اور تمام ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے دہائیوں پر محیط قبضے کو تسلیم نہ کریں۔
عدالت نے یہ بات جنرل اسمبلی کی جانب سے مشاورتی رائے کی درخواست پر کہی ہے جس میں پوچھا گیا تھا کہ مشرقی یروشلم سمیت مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی پالیسیوں اور اقدامات کے قانونی نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔
READ HERE: the summary of the Advisory Opinion in respect of the Legal Consequences arising from the Policies and Practices of Israel in the Occupied Palestinian Territory, including East Jerusalem https://t.co/rLhpNKIjkc pic.twitter.com/98gPx7VQZw
— CIJ_ICJ (@CIJ_ICJ) July 19, 2024
‘آئی سی جے‘ کا مشورہ بین الاقوامی قانون سے متعلق سوالات پر اس کی قانونی رائے ہوتی ہے۔ ممالک کے مابین مقدمات میں دیے گئے فیصلوں سے برعکس قانونی آراء کی پابندی کرنا لازم نہیں ہوتا۔ ایسی آرا عموماً اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی یا سلامتی کونسل کی جانب سے طلب کی جاتی ہیں۔
تاہم، اس کے باوجود یہ آراء بین الاقوامی پالیسیوں کی تشکیل، ممالک پر اخلاقی دباؤ بڑھانے اور ان کی جانب سے پابندیوں کے نفاذ جیسے یکطرفہ اقدامات کا باعث بن سکتی ہیں۔
غیرقانونی قبضہ
‘آئی سی جے’ نے اپنی رائے میں کہا ہےکہ اسرائیل کی ذمہ داری ہے کہ وہ مقبوضہ مغربی علاقوں میں اپنی غیرقانونی موجودگی جلد از جلد ختم کرے۔
اس پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ آبادکاری کی تمام نئی سرگرمیوں کا خاتمہ کرے اور آبادکاروں کو مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے نکالے۔ علاوہ ازیں ان علاقوں میں اسرائیل کی سرگرمیوں اور پالیسیوں سے لوگوں کو ہونے والے نقصان کا ازالہ کیا جائے۔
عدالت نے قرار دیا ہے کہ تمام ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ مقبوضہ فلسطینی علاقے میں اسرائیل کی متواتر موجودگی کے باعث پیدا ہونے والی صورتحال کو برقرار رکھنے میں کوئی مدد فراہم نہ کریں۔
بین الاقوامی اداروں کی ذمہ داری
عدالت کے مطابق، اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی اداروں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اسرائیل کی ان علاقوں میں غیرقانونی موجودگی سے پیدا ہونے والی صورتحال کو قانونی تسلیم نہ کریں۔
بالخصوص جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل کی غیرقانونی موجودگی کو جلد از جلد ختم کرنے کے لیے درکار موزوں طریقہ ہائے کار اور اقدامات پر غور کریں۔
اسرائیل کا ردعمل
اطلاعات کے مطابق اسرائیل کے وزیر خارجہ نے ‘آئی سی جے’ کی رائے کو ‘بنیادی طور پر غلط’ اور ‘واضح طور پر یکطرفہ’ قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے۔
انہوں نے اپنے اس موقف کو دہرایا ہے کہ علاقے میں سیاسی تصفیہ فریقین کے مابین ‘براہ راست بات چیت’ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
جنرل اسمبلی کی درخواست
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دسمبر 2022 میں ایک قرارداد کی منظوری دی تھی جس میں ‘آئی سی جے’ سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 96 اور عدالتی دستور کے آرٹیکل 65 کے تحت اپنی رائے مہیا کرے۔
عدالت نے اپنی رائے دیتے ہوئے اسرائیل کے طویل قبضے،1967 سے جاری آباد کاری اور فلسطینی علاقوں کے الحاق اور یروشلم کی آبادیاتی ترکیب و حیثیت کو متاثر کرنے جیسے امتیازی اقدامات کے باعث فلسطینی لوگوں کے حق خود ارادیت کی خلاف ورزی کے قانونی نتائج کو واضح کیا ہے۔
‘آئی سی جے’ نے یہ بھی بتایا ہے کہ کیسے اسرائیل کی پالیسیاں اور اقدامات قبضے کی قانونی حیثیت اور اس کے قانونی نتائج پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔