اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے کہا ہے کہ تعلیم کا عالمی بحران اس شعبے میں ڈرامائی تبدیلی کا تقاضا کرتا ہے تاکہ مزید پرامن، مستحکم اور منصفانہ دنیا تشکیل دی جا سکے۔
انہوں نے اقوام متحدہ کے اعلیٰ سطحی سیاسی فورم (ایچ ایل پی ایف) میں تعلیم میں تبدیلی لانے سے متعلق اجلاس کے موقع پر کہا ہے کہ دنیا اس معاملے میں ناکافی اقدامات کی متحمل نہیں ہو سکتی لیکن فی الوقت یہی کچھ ہو رہا ہے۔
Pleased to join the UN Secretary-General Antonio Guterres @antonioguterres and the President of the @UNECOSOC, Paula Narváez @paulanarvaezo at the Special Event on Transforming Education.
— UN GA President (@UN_PGA) July 11, 2024
Education gives people and communities the tools to overcome poverty, pursue dream careers… pic.twitter.com/Xh6RVRES2J
انہوں نے تمام ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ سیکھنے کا ایسا حقیقی ماحول تشکیل دینے کے لیے مرتکز کوششیں کریں جہاں ہر فرد کو بچپن سے بلوغت تک ہر مرحلے میں سمجھنے سیکھنے کے مواقع میسر رہیں۔
تعلیم کے عالمگیر مسائل
سیکرٹری جنرل نے کہا کہ اگر تعلیم کو تبدیل کرنے کے اقدامات نہ کیے گئے تو 2030 تک دنیا بھر میں آٹھ کروڑ 40 لاکھ بچے سکول کی تعلیم سے محروم ہوں گے۔
پائیدار ترقی کا چوتھا ہدف بھی ایسے ہی اقدامات کا تقاضا کرتا ہے جس کا مقصد تمام لوگوں کے لیے مشمولہ اور مساوی طور سے معیاری تعلیم یقینی بنانا اور زندگی کے ہر مرحلے میں سیکھنے کے مواقع فراہم کرنا ہے۔ تاہم، فی الوقت تقریباً 17 فیصد ممالک ہی اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے درست راہ پر گامزن ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ثانوی درجے کی تعلیم مکمل کرنے کی شرح میں نہایت سست روی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ طلبہ تبدیل ہوتی دنیا میں کامیابی کے لیے درکار صلاحیتوں سے محروم ہیں اور ابتدائی بچپن یا بلوغت کی تعلیم کو عموماً اختیاری سمجھا جاتا ہے۔ ذیلی صحارا افریقہ میں 70 فیصد بچے 10 سال کی عمر تک بنیادی نوعیت کی تحریر ہی نہیں پڑھ سکتے۔
فروغ تعلیم میں مالی رکاوٹیں
سیکرٹری جنرل نے کہا کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے معیاری تعلیم کی فراہمی ضروری ہے اور اس کے لیے فی الوقت دستیاب مالی وسائل ناکافی ہیں۔
2023 میں اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی و ثقافتی ادارے (یونیسکو) نے اندازہ لگایا تھا کہ ترقی پذیر ممالک کو پائیدار ترقی کا چوتھا ہدف حاصل کرنے کے لیے سالانہ 100 ارب ڈالر درکار ہوں گے۔ جب تعلیم میں آنے والی ڈیجیٹل تبدیلی کے اخراجات کو دیکھا جائے تو یہ رقم 50 فیصد تک بڑھ جاتی ہے۔
سیکرٹری جنرل نے کہا کہ دنیا کے 40 فیصد لوگ ایسے ممالک میں رہتے ہیں جہاں حکومتیں تعلیم یا صحت سے کہیں زیادہ رقم قرضوں کی ادائیگی پر خرچ کرتی ہیں۔ 2022 میں تعلیم کو تبدیل کرنے کے موضوع پر اقوام متحدہ کی کانفرنس میں 140 سے زیادہ ممالک نے اس بحران پر قابو پانے کا عزم کیا تھا۔ لیکن تاحال اس ضمن میں ہونے والی پیش رفت سست رو بلکہ ناہموار ہے۔
غربت اور صنفی مسائل
جنرل اسمبلی کے صدر ڈینس فرانسس نے تعلیم میں تبدیلی سے متعلق سیکرٹری جنرل کی بات کو دہرایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں جنوبی سوڈان کے دورے میں انہوں نے شدید تعلیمی غربت کا مشاہدہ کیا جہاں کم از کم 70 فیصد بچے سکول نہیں جاتے۔
افغانستان میں لڑکیوں کے حصول تعلیم پر پابندی جبکہ غزہ اور یوکرین جیسے علاقوں میں جنگ کے باعث تعلیم تک عدم رسائی اس بے قابو بحران کی واضح علامت ہے۔
ڈینس فرانسس نے کہا کہ ایسے مشمولہ، مساوی اور پوری عمر پر محیط معیاری تعلیمی مواقع کو فروغ دینا ہو گا جن سے تبدیل ہوتی دنیا میں ہر فرد کو ترقی کا موقع مل سکے۔ اس مقصد کے لیے سیاسی ارادے کو واضح اور مخصوص اقدامات کے ساتھ مربوط کر کے ان ہنگامی ضروریات سے فیصلہ کن طور سے نمٹنا ہو گا۔
عملی اقدامات کی ضرورت
عالمگیر تعلیمی بحران پر قابو پانے سے متعلق اس خصوصی پروگرام میں سیکرٹری جنرل رکن ممالک کے لیے اپنا چار نکاتی منصوبہ پیش کر رہے ہیں۔ اس میں مالیات اور رسائی کے حوالے سے مسائل کو حل کرنا، نچلی سطح پر کام کرنے والے اساتذہ کو مدد کی فراہمی اور تعلیمی نظام میں بنیادی تبدیلیاں لانا شامل ہے۔
انتونیو گوتیرش کا کہنا ہے کہ تعلیم واحد اہم سرمایہ کاری ہے جو کوئی ملک اپنے لوگوں اور اپنے مستقبل پر کر سکتا ہے۔ اسی لیے الفاظ کو عملی جامہ پہناتے ہوئے تعلیم کے عالمگیر بحران پر قابو پانے کے مشترکہ اقدامات کیے جائیں۔