اقوام متحدہ کے امدادی اداروں نے بتایا ہے کہ سوڈان کے جنوب مشرقی علاقے میں نئی لڑائی چھڑ گئی ہے جس کے باعث 136,000 سے زیادہ لوگ تحفظ کی تلاش میں گھربار چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) نے کہا ہے کہ سوڈان میں لوگوں کو تحفظ کے حوالے سے کئی طرح کے خطرات درپیش ہیں۔ جنگ زدہ علاقوں میں شہریوں کی املاک کو لوٹا جا رہا ہے۔
#Sudan: Conflict in Sinja Sennar State
— UN OCHA Sudan (@UNOCHA_Sudan) July 4, 2024
➡️ Over 136,000 people flee Sennar State
➡️Conflict in Sinja has significantly exacerbated civilian suffering
➡️Civilians are now facing multiple protection risks
Read the Flash Update No. 02 ➡️https://t.co/Vw0INH6iRQ pic.twitter.com/8NZ0NyoDaK
امدادی شراکت دار جنوب مشرقی ریاست سینار سے نقل مکانی کرنے والے لوگوں کو مدد مہیا کر رہے ہیں تاہم متاثرین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ لوگ سینار کے گردونواح، سنجا اور الدیندر نامی علاقوں میں آ رہے ہیں جہاں پہلے ہی 286,000 پناہ گزین موجود ہیں جن کی تعداد میں متواتر اضافہ ہو رہا ہے۔
لاقانونیت اور لوٹ مار
‘اوچا’ نے اطلاع دی ہے کہ ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کے جنگجو لوگوں کے گھروں، گاڑیوں اور ذاتی سامان کو لوٹ رہے ہیں۔ بازاروں اور دکانوں میں بھی لوٹ مار ہو رہی ہے اور لوگوں کو وسائل سے محروم کیا جا رہا ہے جبکہ عدم تحفظ کی صورتحال بڑھتی جا رہی ہے۔
یاد رہے کہ سوڈان کی مسلح افواج (ایس اے ایف) اور اس کی متحارب نیم فوجی ملیشیا ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کے مابین گزشتہ سال اپریل میں لڑائی شروع ہوئی تھی جو تاحال جاری ہے۔
ہزاروں لوگوں کی نقل مکانی
‘اوچا’ نے بتایا ہے کہ ریاست سینار سے نقل مکانی کرنے والے لوگ ہمسایہ ریاست القضارف، کسلا اور نیل ابیض کا رخ کر رہے ہیں۔ 6,800 بچوں سمیت 26 ہزار لوگ القضارف پہنچے ہیں۔ یہ پناہ گزین خوراک، پانی اور پناہ سے محروم ہیں اور ایک مقامی بازار میں جمع ہو رہے ہیں۔
سینار سے مزید ایک ہزار لوگ ریاست کسلا میں پناہ گزینوں کی وصولی کے مرکز میں پہنچے ہیں جبکہ 20 ہزار سے زیادہ لوگوں نے نیل ابیض کا رخ کیا ہے۔ ان میں بیشتر لوگ سکولوں کی عمارتوں میں مقیم ہیں جہاں پہلے ہی بے گھر ہونے والوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔
اقوام متحدہ کے اقدامات
اقوام متحدہ کی امدادی ٹیمیں بڑی تعداد میں نقل مکانی کر کے آنے والے لوگوں کو تیار کھانا اور پینے کا پانی مہیا کر رہی ہیں۔
ان لوگوں کو ایک موبائل کلینک کے ذریعے بنیادی طبی خدمات بھی فراہم کی جا رہی ہیں اور مشترکہ باورچی خانے کے ذریعے تقریباً 15 ہزار لوگوں کو خوراک پہنچائی جا رہی ہے۔
‘اوچا’ کا کہنا ہے کہ اگرچہ امدادی ادارے اپنی خدمات کا دائرہ وسیع کر رہے یہں تاہم بڑھتی ہوئی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے مزید بڑے پیمانے پر امدادی وسائل درکار ہیں۔