اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے کہا ہے کہ دنیا کو موسمیاتی تبدیلی اور مصنوعی ذہانت میں ہونے والی ترقی کے منفی اثرات سے تحفظ دینے کے لیے تقسیم اور تنازعات پر قابو پانا ہو گا۔
قازقستان کے دارالحکومت استانا میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ کثیرفریقی نظام کا بنیادی مقصد امن ہونا چاہیے۔ امن پائیدار ترقی اور انسانی حقوق یقینی بنانے کے لیے پیشگی شرط ہے۔
Our climate is breaking down, threatening water and food security, driving displacement, and fueling political instability.
— António Guterres (@antonioguterres) July 4, 2024
We need far greater ambition to slash emissions and deliver climate justice, starting with the biggest emitters.
اجلاس میں شریک سربراہان مملکت کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے مشرق وسطیٰ سے یوکرین اور سوڈان سے افریقی خطے ساہل تک اور جمہوریہ کانگو، صومالیہ، میانمار اور ہیٹی میں جاری بہت سے تنازعات کا حوالہ دیا جہاں جنگ بندی اور پائیدار امن کی ضرورت ہے۔
سیکرٹری جنرل نے افغانستان کا خصوصی طور پر تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہاں امن اور ایسی مشمولہ حکومت کی ضرورت ہے جو انسانی حقوق کا احترام کرے اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ یکجا ہو۔ تمام ممالک کو چاہیے کہ وہ افغانستان کو دوبارہ دہشت گردی کا مرکز بننے سے بچانے کے لیے مشترکہ اقدامات کریں۔
‘ایس سی او’ کی کونسل سلامتی کے حوالے سے دنیا میں سب سے بڑا اتحاد ہے جس کے ارکان میں بیلارس، چین، انڈیا، ایران، قازقستان، کرغیزستان، روس، پاکستان، تاجکستان اور ازبکستان شامل ہیں۔
انتونیو گوتیرش کا کہنا تھا کہ اس قدر وسیع نمائندگی کے ساتھ شنگھائی تعاون تنظیم کے پاس امن کے لیے موثر کوششیں کرنے کی طاقت ہے اور ایسا کرنا اس کی ذمہ داری بھی ہے۔
دنیا کو لاحق وجودی خطرات
سیکرٹری جنرل نے کہا کہ تنظیم کا اجلاس ایسے موقع پر ہو رہا ہے جب دنیا بھر میں جنگیں ہو رہی ہیں اور ارضی سیاسی تقسیم بڑھ رہی ہے۔ جرائم پر عدم محاسبہ عام ہے اور پائیدار ترقی کے اہداف ناقابل رسائی ہوتے جا رہے ہیں۔
عالمی مسائل کو ممالک اکیلے حل نہیں کر سکتے اسی لیے یہ کثیرفریقی نظام سے وابستگی کے عہد کی تجدید کا موقع ہے۔ اس نظام میں اقوم متحدہ کو مرکزی اہمیت حاصل ہے اور اس کی بنیاد اقوام متحدہ کے چارٹر میں طے کردہ اصولوں، بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی اعلامیے پر ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ لوگ کثیرفریقی نظام پر اعتماد کھو رہے ہیں کیونکہ انہیں وعدے پورے نہ ہونے، دہرے معیارات اور بڑھتی ہوئی عدم مساوات کی شکایت ہے۔
آبی و غذائی تحفظ کو خطرہ
انتونیو گوتیرش نے کہا کہ اقوام متحدہ کے موسمیاتی ماہرین نے تصدیق کی ہے کہ اگرچہ 2023 اب تک کا گرم ترین سال تھا لیکن عالمی حدت میں جس قدر تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اسے دیکھتے ہوئے ممکنہ طور پر مستقبل میں یہ ٹھنڈا ترین سال سمجھا جائے گا۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ پگھلتے گلیشیئروں، تباہ کن سیلاب، طوفانوں، خشک سالی اور شدید گرمی کی لہروں کی صورت میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات پہلے ہی واضح ہیں۔
انہوں نے موسمیاتی تبدیلی سے آبی و غذائی تحفظ اور ترقی و عالمی استحکام کو لاحق خطرات کا تذکرہ بھی کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں نمایاں کمی لانے اور موسمیاتی انصاف قائم کرنے کی ضرورت ہے جس کی سب سے بڑی ذمہ داری دنیا میں یہ گیسیں خارج کرنے والے بڑے ممالک پر عائد ہوتی ہے۔
عالمی موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے طریقوں کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے تمام حکومتوں پر زور دیا کہ وہ عالمی حدت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیئس کی حد میں رکھنے کے لیے اپنے حصے کے وسائل آئندہ برس تک مہیا کر دیں۔
یہ وسائل 2030 اور 2035 تک گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی کے حوالے سے مطلق اہداف کے مطابق ہونا چاہئیں۔ یہ اہداف 2030 تک جنگلات کے کٹاؤ کوروکنے، قابل تجدید توانائی کی صلاحیت کو تین گنا بڑھانے اور معدنی ایندھن کی پیداوار اور صرف میں 30 فیصد تک کمی لانے کے اقدامات کا احاطہ کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں، ممالک کو 2040 تک کوئلے کی پیداوار کا مکمل خاتمہ کرنے کا عہد بھی کرنا ہو گا۔
موسمیاتی تبدیلی: مالی وسائل کی ضرورت
موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات میں مالی وسائل کی فراہمی کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے انہوں نے رواں سال آزربائیجان میں ہونے والی ‘کاپ 29’ میں مضبوط وعدوں کی ضرورت پر زور دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ کثیرفریقی ترقیاتی بینکوں کی قرض دینے کی صلاحیت بڑھانے اور موسمیاتی اقدامات کے لیے مزید نجی سرمایہ خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کو چاہیے کہ وہ موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے مہیا کیے جانے والے مالی وسائل میں اضافہ کریں اور نقصان و تباہی کے ازالے کے نئے فنڈ میں بھی بھرپور حصہ ڈالیں۔
سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ان کوششوں کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے اختراعی مالیاتی طریقہ ہائے کار بشمول کاربن کے اخراج اور معدنی ایندھن کی کمپنیوں پر ٹیکس عائد کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کاپ 29 سے قبل جہازرانی، ہوابازی اور معدنی ایندھن نکالنے کی صنعتوں پر محصولات عائد کرنے کے لیے بھی کہا۔
مصنوعی ذہانت: امکانات و خدشات
مصنوعی ذہانت کا تذکرہ کرتے ہوئے سیکرٹری جنرل نے پائیدار ترقی کی رفتار تیز کرنے میں اس ٹیکنالوجی کے انقلابی امکانات کا تذکرہ کیا۔ تاہم، انہوں ںے خبردار کیا کہ مصنوعی ذہانت جس تیزی سے ترقی کر رہی ہے اسے باضابطہ بنانے کے لیے اتنی ہی رفتار سے قانون سازی نہیں ہو رہی۔ نتیجتاً طاقت کے عدم توازن میں مزید بگاڑ آنے، دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز، انسانی حقوق کمزور ہونے اور عالمگیر تناؤ بڑھنے کا خدشہ ہے۔
ان تمام مسائل پر قابو پانے کے لیے مصنوعی ذہانت پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے مشاورتی بورڈ نے پانچ ترجیحات طے کی ہیں۔ ان میں مصنوعی ذہانت پر بین الاقوامی سائنسی پینل کا قیام، مصنوعی ذہانت کے بارے میں پالیسی سے متعلق باقاعدہ مکالمے اور اس ٹیکنالوجی کے لیے مشترکہ اخلاقی معیارات اور ضوابط کا قیام، مصنوعی ذہانت کے الگورتھم میں استعمال ہونے والی معلومات کا بہتر انتظام اور ایک عالمی فنڈ کے ذریعے ترقی پذیر ممالک میں مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی سے متعلق صلاحیتوں میں اضافے کے اقدامات شامل ہیں۔
سیکرٹری جنرل نے ان کوششوں کی نگرانی کے لیے اقوام متحدہ میں مصنوعی ذہانت سے متعلق دفتر قائم کرنے کی تجویز بھی پیش کی۔
کانفرنس برائے مستقبل
سیکرٹری جنرل نے امید ظاہر کی کہ رواں سال ہونے والی کانفرنس برائے مستقبل عالمگیر یکجائی کی تجدید کرنے اور انسانیت کو درپیش وجودی خطرات سے نمٹنے کا فیصلہ کن موقع ثابت ہو گی۔
انہوں نے شنگھائی تعاون تنطیم کے رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ اجتماعی اقدام کے اس اہم موقع سے فائدہ اٹھائیں۔
سیکرٹری جنرل نے وسطی ایشیائی ممالک کے اس دورے میں ازبکستان، کرغیزستان، قازقستان، تاجکستان اور ترکمانستان کا دورہ کیا اور اس دوران ‘ایس سی او’ کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں شرکت کی۔ اس موقع پر انہوں نے امن سے لے کر اسلحے کے عدم پھیلاؤ اور پائیدار ترقی تک بہت سے مسائل اور امور پر تبادلہء خیال کیا۔