نو مہینے سے جنگ کا شکار غزہ میں قحط کا خطرہ برقرار ہے اور غذائی تحفظ کے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ علاقے میں 20 فیصد سے زیادہ گھرانوں کو اکثر دن بھر کوئی خوراک میسر نہیں آتی۔
‘غذائی تحفظ کے مراحل کی مربوط درجہ بندی’ (آئی پی سی) سے متعلق تازہ ترین رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غزہ کی 96 فیصد آبادی یا 21 لاکھ 50 ہزار لوگوں کو ‘بحرانی’ درجے یا اس سے زیادہ کے شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے جسے ‘آئی پی سی 3’ بھی کہا جاتا ہے۔ (جانیے کہ قحط کب اور کیسے رونما ہوتا ہے؟)
ان لوگوں میں پانچ لاکھ ایسے افراد بھی شامل ہیں جنہیں تباہ کن درجے کا غذائی عدم تحفظ (آئی پی سی 5) درپیش ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جب تک جنگ جاری رہے گی اور انسانی امداد تک رسائی میں رکاوٹیں قائم رہیں گی اس وقت تک پورے غزہ میں قحط کا سنگین خطرہ برقرار رہے گا۔رپورٹ کے مطابق، شمالی غزہ میں غذائی تحفظ کی صورتحال میں قدرے بہتری دیکھی گئی ہے جہاں مئی کے آخر تک قحط پھیلنے کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔
اقوام متحدہ کےپروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) نے اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ شمالی غزہ میں غذائی تحفظ میں بہتری سے ثابت ہوتا ہے کہ امداد میں اضافے سے کس قدر فرق پڑتا ہے۔ اس علاقے میں خوراک کی فراہمی بڑھانے سے انتہائی شدید درجے کی بھوک میں کمی لانے میں مدد ملی ہے۔
🔴 The latest food security assessment on #Gaza reveals 96% of people face extreme levels of hunger.
— WFP in the Middle East & North Africa (@WFP_MENA) June 25, 2024
Nearly half a million people are in catastrophic conditions.
To truly turn the corner and prevent famine, full and sustained humanitarian access remains critical warns WFP.
‘کوئی جگہ محفوظ نہیں’
اقوام متحدہ کے ایک امدادی کارکن نے بتایا ہے کہ غزہ میں ایک سینٹی میٹر جگہ بھی محفوظ نہیں رہی۔ علاقے کی آبادی اور امدادی اداروں کی قیمت پر جنگی قوانین کو متواتر پامال کیا جا رہا ہے۔
امدادی امور کے لیےاقوام متحدہ کے رابطہ دفتر(اوچا) کی عہدیدار یاسمینہ غوئردہ نے جنیوا میں صحافیوں کو بتایا کہ غزہ میں امداد کی فراہمی کا عمل غیریقینی حالات سے دوچار ہے۔ اس کے نتیجے میں غذائی قلت کا شکار بچوں کے لیے کوئی مدد میسر نہیں رہی۔ علاقے میں کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں حملے کا خطرہ نہ ہو۔
حملوں سے قبل لوگوں کے پاس کسی علاقے سے انخلا کرنے کے لیے 10 سے 15 منٹ ہوتے ہیں۔ ایسے میں انہیں جلدی سے یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ کون سا سامان ساتھ لے جانا ہے اور کون سا چھوڑ دینا ہے۔ غزہ شہر، جبالیہ، خان یونس، دیرالبلح اور اب رفح سے انخلا کرنے والوں سمیت سبھی کی یہی کہانی ہے۔
نصیرت کیمپ سانحہ
وسطی غزہ کے نصیرت پناہ گزین کیمپ میں چار اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے اسرائیل کی عسکری کارروائی کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس حملے سے قبل کوئی انتباہ جاری نہیں کیا گیا تھا۔ اسرائیلی فوج نے اس کارروائی میں چار یرغمالیوں کو رہا کرا لیا تھا جس میں سینکڑوں افراد کی ہلاکت ہوئی۔
انہوں نے اس حملے کے بعد ہسپتال کے دورے کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہاں انہوں نے ایسے بچے دیکھے جن کے جسمانی اعضا کٹ گئے تھے، وہ خلا میں گھور رہے تھے جبکہ نہ تو ان کے منہ سے کوئی آواز نکلتی تھی اور نہ ہی آنکھوں میں آنسو آتے تھے۔
رفح سے دو ہفتوں کے اندر انخلا کرنے والے 10 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو انسانی امداد کی فراہمی انتہائی مشکل کام ہے جبکہ اسرائیل کی جانب سے مصر کے ساتھ سرحد بند کیے جانے سے یہ مشکل اور بھی بڑھ گئی ہے۔
متواتر لڑائی، ہر شے کی قلت، امدادی گوداموں پر مسلسل حملوں، ڈھیروں انتظامی رکاوٹوں، کمزور فون اور انٹرنیٹ اور تباہ شدہ سڑکوں نے امدادی اداروں کے لیے کام کرنا انتہائی دشوار بنا دیا ہے۔ امدادی قافلوں کو گھنٹوں اسرائیلی فوجی چوکیوں پر آگے جانے کی اجازت لینے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
جنگ مخالف مظاہرین پر تشدد
تعلیم کے حق پر اقوام متحدہ کی خصوصی اطلاع کار فریدہ شہید نے امریکہ میں غزہ کی جنگ کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ کے خلاف پرتشدد کارروائی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اپنی رائے کا اظہار کرنے والوں کے خلاف ایسا سلوک خدشات کا باعث ہے۔
انہوں نے گزشتہ روز اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کو بتایا کہ یہودیوں سمیت فلسطین نواز مظاہرین کو غیرمتناسب طور سے کڑی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اسرائیلی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے والے ان مظاہرین پر یہود مخالف خیالات کا اظہار کرنے کا الزام ہے۔
انہوں نے کہا کہ تمام حکومتیں تشدد، جنگ یا تفریق کی ترغیب دینے کے اقدامات کو ممنوع قرار دیں جبکہ سیاسی رائے کا اظہار آزادی اظہار پر پابندیوں کی بنیاد نہیں بن سکتا۔