سوشل میڈیا پر ایک تصویر شیئر کی جا رہی ہے۔ اس میں ایک بچی اور تختہ دار (پھانسی) پر چڑھنے والا ایک شخص مسکراتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ اس تصویر کو ایران کے صدر ابراہیم رئیسی سے جوڑتے ہوئے انھیں ظالم و جابر قرار دیا جا رہا ہے۔
اس تصویر سے متعلق سوشل میڈیا یوزرس دعویٰ کر رہے ہیں کہ ایران کے صدر نے اپنے خلاف سوشل میڈیا پر لکھنے کے الزام میں ایک شخص کو موت کی سزا دی تھی۔ تب اس کی 5 سال کی بیٹی اپنے والد کو حسرت بھری نگاہ سے تک رہی تھی اور وہ اپنی بیٹی کو ہنس کر خوش کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ آج درندہ مر گیا، ہر درندے کا یہی انجام ہوتا ہے۔
جتیندر پرتاپ سنگھ (@jpsin1) سمیت کئی یوزرس نے متذکرہ بالا دعوے کے ساتھ تصویر شیئر کی ہے۔
فیکٹ چیک:
وائرل تصویر کی حقیقت جاننے کے لیے DFRAC ٹیم نے اسے Google کی مدد سے ریورس سرچ کیا۔ اس دوران ہمیں ٹائمس آف انڈیا کی جانب سے 2 اگست 2007 کو شائع ایک نیوز میں بچی کی وہی تصویر ملی۔
ٹائمس آف انڈیا کی جانب سے اس تصویر کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ- ایک لڑکی جمعرات کو سیکڑوں افراد کی بھیڑ کے سامنے تہران میں ایک جج کے قاتلوں ماجد کاووسِفر اور حسین کاووسِفر کی پھانسی میں (بطور ناظر) شامل ہوئی، جنھوں (جج) نے کئی اصلاح پسند غیر مطمئن افراد کو جیل میں ڈال دیا تھا۔
وہیں، ہمیں @reuterspictures کی ویب سائٹ پر اس شخص کی تصویر ملی، جو وائرل تصویر میں پھانسی پر چڑھتے ہوئے ہنس رہا ہے۔ اس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ- ماجد کاووسِفر اور اس کے بھتیجے حسین کاووسِفر کو اگست 2005 میں ایرانی جج حسن مقدس کے قتل کا مجرم قرار دیا تھا۔
ہماری ٹیم کو میڈیا رپورٹس میں یہ نہیں ملا کہ تصویر میں نظر آ رہی بچی، ماجد کی بیٹی ہے۔ ساتھ ہی، اب تک واضح ہو گیا کہ پھانسی کی سزا سوشل میدیا پر صدر کے خلاف پوسٹ لکھنے کے سبب نہیں ہوئی ہے، بلکہ یہ ایک جج کے قتل کا انجام ہے۔
DFRAC نے پایا کہ ویب سائٹ iranprimer.usip.org کی جانب سے شائع ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 2005 سے 2013 تک ایران کے صدر محمود احمدی نژاد تھے۔ اور ابراہیم رئیسی اگست 2021 میں صدر منتخب ہوئے تھے۔
نتیجہ:
زیر نظر DFRAC کے فیکٹ چیک سے واضح ہے کہ وائرل تصویر 2007 کی ہے۔ ماجد کاووسِفر اور اس کے بھتیجے حسین کاووسِفر کو جج حسن مقدس کے قتل کا مجرم پائے جانے پر پھانسی کی سزا دی گئی تھی۔ اس وقت ابراہیم رئیسی ایران کے صدر نہیں تھے۔ اس لیے، سوشل میڈیا یوزرس کا دعویٰ غلط ہے۔