سوشل میڈیا اور میڈیا میں ایک دعویٰ وائرل ہو رہا ہے کہ رئیسی حکومت کے مذہبی امور کے مشیر محمد حاج ابو القاسم دولابی نے بیان دیا ہے کہ لوگوں کی گھٹتی دلچسپی کے سبب ایران میں 50 ہزار سے زائد مساجد ہو گئی ہیں۔
ساؤتھ ایشیا انڈیکس نے ایک ٹویٹ تھریڈ میں دعویٰ کیاکہ صدر ابراہیم رئیسی کے کونسل مشیر ابو القاسم دولابی نے ایران میں مذہب کے تئیں عوام میں گھٹتی دلچسپی پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ایران کی 75000 مساجد میں سے 50000 مساجد، نمازیوں کی کمی کے سبب بند ہو گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مراکش میں زیادہ لوگوں کے مسجد جانے کے سبب 50 ہزار مساجد ہونے کے باوجود 172 نئی مسجدیں بنائی گئیں، ایران میں مساجد کو بند کیا جا رہا ہے۔
Tehran:— Top Iranian religious leader claims 50,000 out of 75,000 mosques in Iran have been closed due to lack of worshippers in the mosques. 1/4
— South Asia Index (@SouthAsiaIndex) June 3, 2023
Tweet Archive Link
پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کی سابق اہلیہ ریحام خان نے بھی ایسا ہی دعویٰ کیا ہے۔
Senior Cleric Claims Religion In Iran Weak, 50,000 Mosques Closed https://t.co/5wYAKrXuvx
— Reham Khan (@RehamKhan1) June 5, 2023
Tweet Archive Link
وہیں کئی نیوز ویب سائٹس نے بھی یہی دعویٰ کیا ہے۔
فیکٹ چیک:
کیا ایران میں مذہب کے تئیں دلچسپی کم ہو رہی ہے، اس لیے مسجدیں بند ہو رہی ہیں؟ اس دعوے کی حقیقت جاننے کے لیے DFRAC ٹیم نے کچھ فارسی کی-ورڈ کی مدد سے گوگل سرچ کیا۔ اس دوران ٹیم کو کچھ میڈیا رپورٹس ملیں۔
ویب سائٹ hawzahnews.com کی جانب سے سرخی،’مساجد بند ہونے کی خبر کا، دشمنوں کے غلط استعمال پر صدر کے صلاح کار کا رد عمل‘ (فارسی ترجمہ) کے تحت نیوز پبلش کی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ صدر رئیسی کے صلاح کار محمد حاج ابوالقاسم دولابی نے حقیقت میں کیا بیان دیا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ ملک میں بڑی تعداد میں مساجد کے بند ہونے کے بارے میں میرے حوالے سے نیوز پبلش ہونے کے بعد کچھ غیر ملکی دشمنوں اور ان کے کچھ گھریلو دھوکے بازوں نے عوام کی دین داری میں کمی کے سبب کے طور پر میرے بیان کا غلط استعمال کیا۔
انہوں نے نکات میں وضاحت کی ہے کہ لوگوں کی مذہبی دلچسپی میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ شب قدر، درگاہ کی زیارت، اربعین کا سفر، حج اور عمرے میں لوگوں کی بڑی تعداد میں شراکت داری ہے جن میں حجاب احتجاج کے باوجود 90 فیصد خواتین بھی شامل ہیں۔
معاشی مسائل کے باوجود مختلف پروگراموں میں بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت ان کے صبر و تحمل کا واضح ثبوت ہے کہ وہ اسلامی حکومت کے ساتھ ہیں۔
بہت سی مساجد کے دروازے کا بند ہونا، ایک ایسا معاملہ ہے جس کا لوگوں کی مذہبیت سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کے بجائے، یہ کئی دیگر وجوہات سے ہے، جن میں ائمہ کے قیام کے لیے ضروری بنیادی ڈھانچے کی کمی، مقامی انتظام کے مرکز سے مساجد کی دیکھ بھال میں کمی، مسجد کا محض نماز حال تک محدود ہونا وغیرہ شامل ہے۔
انہی عوامل میں سے ایک کل وقتی امام کی عدم موجودگی بھی ہے۔ مسجد کے انتظام کے لیے دو کل وقتی اہلکارو کو رکھنے کے خرچے کے مستقل وسائل سمیت لازمی بنیادی ڈھانچے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں ائمہ کو ٹریننگ دینے میں مدارس کا کردار بہت اہم ہے۔
اسلامی انقلاب سے پہلے ایسے تمام اخراجات عوام خود برداشت کرتے تھے۔ لیکن یہ واضح ہے کہ موجودہ حالات میں لوگوں سے اس طرح کے تمام اخراجات برداشت کرنے کی توقع غلط ہے۔ کیونکہ ایک طرف تو تیل اور کان جیسے تمام قومی وسائل حکومت کے کنٹرول میں ہیں اور دوسری طرف لوگوں کے معاشی مسائل میں اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر حالیہ برسوں میں۔ ایسے میں عوام کی سنجیدہ شراکت کا امکان کم ہو گیا ہے۔ خاص طور پر جب لوگ دیکھتے ہیں کہ حکومت زیادہ تر ثقافتی شعبوں میں پیسہ خرچ کرتی ہے، اور جب بات مساجد کی ہو، تو کچھ لوگ توقع کرتے ہیں کہ تمام اخراجات عوام ہی برداشت کریں گے۔
مسجد سپورٹ کونسل کا بند ہونا بھی ایک وجہ ہے۔ اسے دوبارہ کھولنے کی کوششیں جاری ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا تھا کہ مذہبی اداروں کی حمایت کرنے میں سابقہ حکومتوں نے کوئی اچھا ٹریک ریکارڈ نہیں چھوڑا اور آج ہزاروں مساجد کے دروازے بند ہیں۔
نتیجہ:
زیر نظر DFRAC کے اس فیکٹ چیک سے واضح ہے کہ وائرل دعویٰ گمراہ کُن ہے کہ صدر رئیسی کے صلاح کار اور سینیئر عالم دولابی نے بیان دیا ہے کہ عوام کی گھٹتی دلچسپی کے سبب ایران میں 50 ہزار سے زائد مساجد بند ہو گئی ہیں۔