ایک چٹان پر کیے گئے نقش و نگار کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے، جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک آدمی کمان پکڑے ہوئے ہے اور اس کے بغل میں ایک ترکش ہے اور اس کی بیلٹ میں ایک تلوار ہے اور ہاتھ جوڑے ایک شخص استدعا کُناں بیٹھاہے۔
سوشل میڈیا یوزرس دعویٰ کر رہے ہیں کہ یہ بھگوان رام اور بھگوان ہنومان کا مظہر، چٹان پر کی گئی نقاشی ہے۔
اس تصویر کو شیئر کرتے ہوئے امبوج بھاردواج نے کیپشن کیا: ’عراق کے سلیمانیہ میں 6000 سال پرانے پربھو شری رام اور ہنومان جی کی نقاشی‘۔
اس دوران کئی دیگر سوشل میڈیا یوزرس بھی اسی طرح کی پوسٹ شیئر کر رہے ہیں۔
فیکٹ چک:
وائرل دعوے کی حقیقت جاننے کے لیے، DFRAC ٹیم نے وائرل تصویر کو ریورس سرچ کیا۔ ٹیم نے پایا کہ tripadvisor نے اس رپورٹ کو اس سرخی کے ساتھ کور کیا ہے،’ دی اکُاڈِین راک-ریلیف آف دربندی بیلولا، 2200 قبلِ مسیح کا ہے جو اپنے دشمنوں پر راجہ ’تاردونی‘ کی جیت کی نمائندگی کرتا ہے۔
مزید تتبع و تلاش پر ٹیم نے پایا کہ کئی میڈیا ہاؤسز نے سنہ 2019 میں بھی اس رپورٹ کو کور کیا ہے۔
ہمیں رپورٹس میں وکی پیڈیا پیج اور ورلڈ ہزٹری بھی شامل ملا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ چٹان رلیف اکاڈین دور کی ہے۔ یہ ایران کی سرحد، عراق کے پاس سُلیمانیہ کے ایمٹی درباری بِلولا، ہوری اور شیخان علاقے کی چٹان پر واقع ہے۔
دائیں جانب اکاڈیَن کیونیفارم نوشتہ میں جنگجو کے نام کا ذکر،’ٹار…اِکّی کا بیٹا دُنّی۔ دیوتاؤں کے نام، شمش اور اداد کا بھی ذکر کیا گیا تھا۔ ’تاردونی‘ ایک مقامی راجہ، راج کمار، ایڈمنسٹریٹر یا ایک ہائی رینکنگ افسر ہو سکتا ہے، شاید لؤلؤبِین‘۔
تاردُنِّی کے بارے میں مزید جاننے کے لیے ہم نے گوگل پر سرچ کیا تو معلوم ہوا کہ وکی وانڈ نے تاردُنی کا ذکر کیا تھا جسے یہاں پڑھا جا سکتا ہے۔
اسامہ شکیر محمد امین نامی یوٹیوب چینل نے 09 مئی 2019 کو ایسی ہی ایک چٹان کی نقاشی کا ویڈیو اپلوڈ کیا ہے۔
نتیجہ:
زیرِ نظر DFRAC کے فیکٹ چیک اور کئی میڈیا رپورٹس سے یہ واضح ہے کہ وائرل چٹان پر نقاشی، بھگوان رام اور ہنومان کا نہیں بلکہ مقامی راجہ تاردُنّی کا ہے، اس لیے سوشل میڈیا یوزرس کی جانب سے دعویٰ گُمراہ کُن ہے۔