سوشل میڈیا سائٹس پر ایک ویڈیو جم کر وائرل ہو رہا ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگوں کی ایک بڑی بھیڑ نے ایک ہندو مندر میں توڑ پھوڑ کی اور اسے آگ لگا دی۔ سوشل میڈیا یوزرس دعویٰ کر رہے ہیں کہ پاکستان میں 100 سال پرانے شیو مندر کو مسلمانوں کے ہجوم نے توڑا۔
امردیپ پوٹفوڈے نامی ایک سوشل میڈیا یوزرس نے اس ویڈیو کو کیپشن کے ساتھ شیئر کیا،’دیکھیے پاکستان میں 100 سال پرانا بھگوان شیو کے مندر کو کیسے توڑا گیا۔ اور یہاں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بننے والا رام جنم بھومی مندر نہ صرف ’ہرے کیڑوں‘ کو بلکہ کچھ نام نہاد سیکولر ہندوؤں کو بھی کھٹک رہا ہے‘۔
اس دوران کئی اور سوشل میڈیا یوزرس بھی یہی دعویٰ کر رہے ہیں۔
فیکٹ چیک:
وائرل ویڈیو کی حقیقت جاننے کے لیے DFRAC ٹیم نے کچھ کی-ورڈ سرچ کیے اور اس واقعہ سے متعلق انگریزی اخبار ’دی نیو انڈین ایکسپریس‘ نے 30 دسمبر 2020 کو ایک رپورٹ پبلش کی تھی، جس میں بتایا گیا تھا،’پاکستان کے خیبر صوبے میں ہندو مندر کو توڑ دیا گیا، بھیڑ کی جانب سے آگ لگا دی گئی‘۔ (اردو ترجمہ)
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 100 افراد پر مشتمل ہجوم نے، جس کی قیادت مقامی مسلم علماء کر رہے تھے، صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرک میں ایک ہندو مندر کو تباہ کر دیا اور آگ کے حوالے کر دی۔
ٹائمس آف انڈیا نے بھی اس واقعہ پر ایک رپورٹ پبلش کی جس کی سرخی تھی’ناراض ہجوم نے شمال مغربی پاکستان میں ہندو مندر کو توڑا‘۔ (اردو ترجمہ)
ٹائمس آف انڈیا کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ انہدام سے قبل دائیں بازو کی جمعیت علمائے اسلام (فضل) (جے یو آئی-ایف) کی ریلی قریب ہی منعقد ہوئی تھی جہاں مقررین نے شعلہ انگیز تقاریر کی تھیں۔ ریلی کے بعد مشتعل ہجوم مندر کی طرف بڑھا اور اس پر حملہ کر کے اسے آگ لگا دی۔
جس مندر کو منہدم کیا گیا تھا اس جگہ پر تعمیر کیا گیا تھا جہاں پرمہنس سوامی ادویتانند مہاراج کا 1919 میں انتقال ہوا تھا۔ ان کی ’سمادھی استھل‘ پر ایک مندر بنایا گیا تھا۔ ان کے پیروکار، زیادہ تر جنوبی صوبہ سندھ سے، ان کے اعزاز میں پوجا-ارچنا کے لیے آتے تھے۔
وہیں کئی اور میڈیا ہاؤسز نے بھی اس رپورٹ کو کور کیا ہے۔
دریں اثنا، ہماری ٹیم کو 30 دسمبر 2020 کو اس دعوے سے متعلق کچھ ٹویٹس بھی ملے۔
نتیجہ:
زیرِ نظر DFRAC کے اس فیکٹ چیک اور کئی میڈیا رپورٹس سے واضح ہے کہ پاکستان کے شمال مشرقی خیبر پختونخوا صوبے میں مقامی افراد کی جانب سے توڑے گئے 100 سال پرانے مندر کا ویڈیو دسمبر 2020 کا ہے، اس لیے سوشل میڈیا یوزرس کی جانب سے کیا گیا دعویٰ گمراہ کن ہے۔